کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 493
عمر رضی اللہ عنہ نے اسے آپ کے سامنے پڑھنا شروع کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوگئے اور فرمانے لگے: ’’میں تمھارے پاس ایک صاف ستھری اور روشن چیز لے کر آیا ہوں، تم ان (اہل کتاب) سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے تو وہ تمھیں اس کی سچی خبر دیں گے تو تم اس کو جھٹلا دو گے، یا وہ تمھیں اس کے متعلق جھوٹی خبر دیں گے تو تم اس کی تصدیق کر دو گے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کے لیے بھی میری پیروی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘[1] مبادیات پر سودے بازی۔۔۔ کسی صورت نہیں: اس قاعدے کے مطابق دین کے ساتھ نسبت پر ظاہری یا باطنی سودے بازی، یا دین کے ان تسلیم شدہ عقائد پر سودے بازی کرنا، جن میں کوئی جھگڑا یا اختلاف نہیں جن کا ہر زمانہ تابع ہو جبکہ وہ کسی خاص زمانے کے ما تحت نہیں، ان جیسی اشیا پر سودے بازی کرنا یقینا بہت بڑی خیانت، عقل سے خالی پاگل پن اور ایسی بے ہوشی ہے جس میں بیداری نہیں۔ کیونکہ آدمی کی عزت اور معاشرے کا وقار دین کے ساتھ نسبت رکھنے، اس پر عمل کرنے، اس کی دعوت دینے اور موت تک اس پر کاربند رہنے ہی میں ہے۔ جس شخص کو مشغولیاتِ زندگی تبدیل کردیں، بڑے حادثات، شکست خوردگیاں کوئی لالچ یا خوف اس کے وجود کو ہلا کر رکھ دے۔ پھر دین پر ثابت قدم رہنے کے بعد اس کا قدم پھسل جائے تو ایسا شخص حقیقت میں لاپرواہ،برباد، سوت کاتنے کے بعد اسے توڑنے والا، ہار میں موتی پرو کر اسے کھولنے والا، اور ہدایت کے بعد گمراہی اور عزت کے بعد ذلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: { اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِھِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْھُدَی الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَھُمْ وَاَمْلٰی لَھُمْ ، ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ کَرِھُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِسْرَارَھُمْ ، فَکَیْفَ اِِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ ، ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِھُوا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ} [محمد: ۲۵ تا ۲۸]
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۲۳۵) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۴۱۶)