کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 491
رہے ہیں، خوف کے عالم میں بھاگ رہے ہیں، اور دکھوں میں مبتلا ہیں، ان کی چیخیں امت اسلامیہ کے کانوں تک پہنچ رہی ہیں لیکن افسوس امت کی نخوت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی کہ وہ اٹھے اور اس نازل ہونے والی مصیبت اور واقع ہونے والے حالات کو روک سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کسی خلل کے متعلق شک کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ خلل ہی درحقیقت اس بہت بڑی کمزوری کا راز ہے کہ حق والے چین کی بانسری بجا رہے ہیں جبکہ باطل حرکت و عمل میں مشغول ہے جس کے نتیجے میں امت کی کمر ٹوٹ چکی ہے، اس کے زخم بہہ رہے ہیں اور اس کی جمعیت منتشر ہو چکی ہے، خصوصاً جو امت کی واقعاتی صورتحال کا علاج کرنا چاہتا ہے اس کو بیماری اور اس کی جگہ کی معرفت ضرور ہونی چاہیے۔ آزمائش کا خوشی سے مقابلہ کریں: مسلمانو! بادنسیم مسلمان معاشروں میں ہمیشہ بیمار ہوکر نہیں چلتی، بلکہ کبھی فضا آلودہ ہوتی ہے، کبھی آندھیاں چلتی ہیں اور آتش فشاں کے دھانے بڑھکتے ہیں۔ اسی طرح مکمل راحت بھی محض ایک خیال اور وہم ہے۔ دانائی اور سمجھداری کا تقاضا ہے کہ اپنے نفس کو اسلام اور مسلمانوں کو پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے، انھیں برداشت کرنے، ان کے لیے تیاری کرنے اور ان کے سامنے استقلال سے کھڑا ہونے کے لیے ہر وقت تیار رکھنا چاہیے۔ صرف ان پر تند و تیز تبصرے کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایسا کام ہے جو شکار تو شاید نہ کرسکے لیکن شکاری کی آنکھ ضرور پھوڑ دیتا ہے۔ پھر یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ وقتاً فوقتاً امت کو جن فتنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ درحقیقت ان کو آزمانے اور نا خالص سے خالص کو جدا کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ فرمانِ ربانی ہے: { لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْکُمَہٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہٗ فِیْ جَھَنَّمَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ} [الأنفال: ۳۷] ’’تاکہ اﷲ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے اور ناپاک کو، اس کے بعض کو بعض پر رکھے، پس اسے اکٹھا ڈھیر بنا دے، پھر اسے جہنم میں ڈال دے۔ یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔‘‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں یہ قاعدہ دیا ہے کہ ہم آزمائش کا خوشی کے ساتھ مقابلہ کریں۔ اللہ