کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 475
کے درمیان اور حق کے درمیان مزید دوریاں بڑھا دیتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے اس وعدے سے غافل ہوجاتے ہیں کہ عمروں اور رزق میں تصرف کا اختیار اس نے اپنے پاس رکھا ہے اور کسی کا اس میں کوئی اختیار نہیں۔ اور جب کوئی اپنے جیسے بشر کی چاپلوسی کرتا ہے، اسے مکھن لگاتا ہے، اس کے سامنے کتے کی طرح دم ہلاتا رہتا ہے اور اس کی مدح کے ڈونگرے برساتا ہے، اس کی خاطر جملے چنتا ہے کہ شاید یہ تعریف اور خوشامد اس کو بغیر کسی استحقاق اور اہلیت کے صدیقین، صالحین اور مصلحین کے مقام پر فائز کر دے۔ پھر یہ شخص بہت سارے باطل اور غلط معاملات کی تائید میں طوطے کی طرح بولتا رہتا ہے اور جہاں حق کی آبرو کا مسئلہ آجائے وہاں زبان کو تالا لگا لیتا ہے، لہٰذا انجام کار اس آدمی کی یہ چاپلوسی اس کے لیے وبال جان بن جاتی ہے، کیونکہ یہ قبیح عادت اسے اﷲ تعالیٰ کے غضب اور ناراضی کا وارث بنا دیتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من التمس رضا اللّٰه بسخط الناس رضي اللّٰه عنہ، وأرضیٰ عنہ الناس، ومن التمس رضا الناس بسخط اللّٰه سخط اللّٰه علیہ، وأسخط علیہ الناس )) [1] ’’جو لوگوں کو ناراض کر کے اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی تلاش کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کر دیتے ہیں، اور جو اﷲ کی ناراضی کے ساتھ لوگوں کی رضا مندی کا متلاشی ہوتا ہے، اﷲ اس پر ناراض ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو بھی اس پر ناراض کر دیتے ہیں۔‘‘ چاپلوسی ناپسندیدہ خو ہے: لہٰذا کہاں ہے جائے پناہ اور فرار و نجات کی راہ؟ اﷲ کے بندو! یہ ایک ناپسندیدہ خو، قابل حقارت عادت اور لائق مذمت رویہ اور روش ہے۔ اصحاب عقل و خرد اور مالکان دانش و بینش اس کے گڑھے میں گرنے اور اس کی گندگی میں ملوث ہونے سے دور بھاگتے ہیں، خصوصاً جب اس خوشامد کا مقصد کسی دوسرے کی چغل خوری اور عزت دری کر کے اس پر الزام تراشی اور طعن و تشنیع کے زہریلے