کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 439
لہٰذا اے مسلمان! رمضان المبارک میں ترک خواہشات کے مضبوط ارادے سے اس دھوکے میں نہ آجانا کہ رمضان گزرنے کے بعد سب کچھ جائز ہو جاتا ہے، کیونکہ خواہشات کے جال ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ میدان قتال میں کتنے بہادر لوگ ایسے لوگوں کے ہاتھوں دھوکے کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جن کو انسان دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور وحشی کا قصہ اس سلسلے کی واضح مثال ہے۔ عبادت کی لذت سے محروم: جو شخص کمال کے بعد تقصیر میں مبتلا ہو جائے یا گناہ سے باز آجانے کے بعد دوبارہ گناہ کا رسیا ہوجائے تو ایسا شخص اطاعت گزاری کے ذریعے کامیابی کے نزدیک آنے کے بجائے اس سے دور ہو جاتا ہے، چاہے وہ ناقص اور موسمی عبادات کے ذریعے اپنا جی ہی کیوں نہ بہلاتا رہے؟ ایسی عبادات مستقل نہیں ہوتیں بلکہ شائد انسان کے لیے مخفی انداز میں ایک بہت بڑی سزا میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا انسان عبادات کی مٹھاس اور مناجات کی لذت سے محروم ہوجاتا ہے۔ صرف وہ مومن مرد و عورت اس لذت سے محظوظ ہوتے ہیں جو عام مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، ان کا باطن ان کے ظاہر کی طرح اور ان کا شوال ان کے رمضان کی طرح ہوتا ہے۔ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ اپنا ایک سفر طے کر رہے ہیں۔ صبر کا خوگر ہی اپنا مقصد پاتا ہے، جو مسلسل دروازہ کھٹکھٹاتا ہے وہی اس میں داخل ہوتا ہے، اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ طبیعت غالب آجائے بلکہ مزہ تو اس بات میں ہے کہ طبیعت کو مغلوب کر لیا جائے۔ ان جیسے لوگ بلا شبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں نیک اعمال پر ہمیشگی اختیار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رمضان میں عبادت کی اپنی خوبی اور خصوصیت ہے جو کسی دوسرے مہینے کی نہیں، تا ہم فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کا صرف یہی مہینہ نہیں، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ساری زندگی میں نیکی اور اطاعت گزاری میں انتہائی فیاض اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے لیکن جونہی رمضان آتا آپ کی فیاضی اور سخاوت میں طغیانی آجاتی۔[1] لہٰذا نیک اعمال سے اعراض کرنے اور ان سے پیچھے ہٹنے کی روش ترک کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] صحیح۔ سنن النسائي، رقم الحدیث (۵۴۹۸) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۲۰)