کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 437
’’اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا، اس کے لیے جو چاہے کہ نصیحت حاصل کرے یا کچھ شکر کرنا چاہے۔‘‘ تمام مسلمان پورا مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے بہرہ ور ہوتے رہے ہیں اور نماز دعا، صدقہ، ذکر اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہ کر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا آپ پیش کرتے رہے ہیںلیکن جونہی یہ دن گزرگئے تو ان کی یادیں بھی مٹ گئیں۔ گویا وہ خزاں رسیدہ پتے تھے جنھیں ہوا نے اڑا دیا یا روحانی بلبلیں تھیں جن کی چہچہاہٹ خاموش ہوگئی حالانکہ اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے! رمضان اور غیر رمضان میں تضاد: مسلمانو! جو شخص لوگوں کی رمضان میں حالت کا رمضان کے بعد والی حالت کے ساتھ تقابل کرتا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے کہ لوگ واضح طور پر سستی اور کاہلی کا شکار ہیں اور نیکی سے دور ہو چکے ہیں تو وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ گویا وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ عبادت، توبہ اور دیگر نیک اعمال کا تعلق صرف رمضان تک محدود ہے۔ کیا ان کو اس بات کی خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام مہینوں کا رب ہے؟ رمضان دوسرے مہینوں کے لیے صرف ایک نیکی اور صبر کی ریاضت کے اسٹیشن کی حیثیت رکھتا ہے تا آنکہ دوسرا رمضان آجائے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کرتے ہوئے فرمایا: { لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ } [البقرۃ: ۲۱] ’’تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘ عبادت کی حقیقت کا جائزہ لیں: اﷲ کے بندو! ہمیں لازماً عبادات کی حقیقتوں اور اثرات کا جائزہ لینا چاہیے، صرف ان کی ظاہری شکل و صورت نہیں دیکھنی چاہیے۔ کتنے ہی ایسے مشقت برداشت کرنے والے ہیں جن کے حصے میں روزے سے بھوک و پیاس کے سوا کچھ بھی نہیں آیا۔ اور کتنے ہی ایسے مسلسل عبادت کرنے والے ہیں لیکن انھیں تھکاوٹ اور بیداری کے سوا کچھ بھی نہیں ملا؟! اس بات کی سب سے یقینی دلیل یہ ہے کہ جب لوگ خود اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ انھوں نے رمضان میں کتنی مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت کی؟ کتنی نصیحت آموز اور عبرت خیز باتیں سنیں؟ کیا انھوں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا، جن جیسے آج تک اس نے انسان پیدا نہیں کیے؟ کیا انھوں نے قوم عاد کو