کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 406
’’وہ ایسا شخص ہے کہ جس کے کان میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے۔‘‘ جب رات کی تاریکی چھا جاتی ہے تو غافل لوگوں کے دل سو جاتے ہیں اور لہو و لعب کے شائقین کی روحیں مر جاتی ہیں، جس نے رات کے لیے کوئی ورد ( تلاوت و نماز ) طے نہیں کر رکھا اس نے اپنے نفس پر سخت زیادتی کی ہے اور اس سے سخت لاپرواہی ہوئی ہے۔ اس سے بڑی حرماں نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی کے لیے اپنے مولائے کریم سے مناجات و دعا اور خلوت و ملاقات کا وقت ہو مگر وہ اس کی طرف جلدی نہ کرے اور کوئی پرواہ ہی نہ کرے؟ اسے اس موقع سے روکنے والا سستی و لاپرواہی کے سوا کوئی نہیں اور اس حرماں نصیبی میں مبتلا کرنے والا نیند اور کم ہمتی کے سوا کچھ نہیں۔ ان لوگو ں کو اب کیا کہیں جو حرام امور اور اشیا پر راتیں گزارتے، گناہوں پر رتجگے کرتے؟ رحمان کے دوستوں ( اولیاء الرحمن ) اور شیطان کے دوستوں ( اولیاء الشیطان ) میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( إن اللّٰه یبغض کل جعظري جواظ، سخاب في الأسواق، جیفۃ باللیل، حمار بالنھار، عالم بأمر الدنیا، جاھل بأمر الآخرۃ )) [1] ’’ اﷲ تعالیٰ ہر اس شخص سے بغض و ناراضی رکھتا ہے جو اکھڑ و بد مزاج، بازاروں میں شور و غل کرنے، رات بھر مردوں کی طرح (بے ذکر و دعا و نماز) پڑا رہنے والا، دن کو گدھے کی طرح ( فرائض ترک کر کے ) کا م ہی کام میں جتا رہنے والا، دنیاوی امور و معاملات کو جاننے والا اور اُخروی زندگی ( کی تیاری ) سے غا فل و نابلد ہے۔‘‘ آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے ان مسلمانوں کو دیکھ لیا ہے جو اسی طرح اپنی راتیں کاٹتے ہیں، فحش ڈرامے، بیہودہ گانے، لغو و لا یعنی تفریحی پروگرام پیش کرنے والے اور بے حیائی کو فروغ دینے والے چینلز دیکھتے رہتے ہیں اور اسی لہو و لعب پر غل غپاڑہ بھی کرتے ہیں۔ بعض گھر قیام اللیل کی ہمت کمزور پڑ جانے کا شکوہ کیوں کرتے ہیں؟ ایسے میں تہجد گزاروں اور عبادت گزاروں کے اس عمل کو
[1] التہجد لابن أبي الدنیا، رقم الحدیث (۳۶۱) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۱۱۳) مسند أحمد (۲/ ۲۵۰) اس حدیث کو امام ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم، ذہبی اور البانی رحمہم اللہ نے صحیح کہا ہے۔