کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 404
لیے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: ’’ منافق کبھی بھی اطاعت ِ الٰہی کے لیے رات کو نہیں جاگ سکتا۔‘‘[1] اﷲ کے بندے وہ نیک لوگ ہیں جن کے بارے میں اس نے فرمایا ہے: { تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ } [السجدۃ: ۱۶] ’’ ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ (جہنم کے) خوف اور (جنت کی) لالچ میں اﷲ تعالی کو پکارتے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان چھپا کر رکھا گیا ہے جو انھیں ان کے اعمال کے بدلے میں دیا جانے والا ہے۔‘‘ ان کے اغراض و مقاصد اور مطالبات و غایات الگ الگ ہیں مگر ان سب کا چشمہ شیریں اور مکان و زمانِ طلب ایک ہی ہے اور وہ ہے ظلمتِ شب۔ ارشاد الٰہی ہے: { قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ } [البقرۃ: ۶۰] ’’ تمام لوگو ں نے اپنے اپنے مقامِ شاد کے مشروب کو پہنچان لیا ہے۔‘‘ یہ محبِ کردگار مناجات و دعا میں خوش ہے، اور وہ محسن جو درجات میں بڑھتا جاتا ہے کیونکہ وہ اعمال میں پیش قدمی کرتا اور اعمال صالحہ کے مقابلوں میں محنت کرکے جیتنے کی لگن رکھتا ہے، اور کوئی خوفِ الٰہی سے گڑ گڑاتا اور اپنے رب سے معافیاں مانگتا ہے، اپنی خطاؤں اور گناہوں پر ندامت کے آنسو بہاتا ہے۔ اﷲ سے امیدیں وابستہ کیے رکھنے والا سوال کرنے میں آہ و زاری کرتا اور اپنے مطلوب و مقصود کو پا لینے پر بھر پور اصرار کرتا ہے ، گناہگار و تقصیر کرنے والا نجات کی دعائیں کرتا ہے اور اپنی تقصیر و سیاہ کاریوں پر معافی مانگتا اور معذرتیں کرتا ہے، غرض ہر کوئی اﷲ تعالی کو پکارتا ہے، ان میں سے بیم و رجا اور خوف و امید کے جذبات میں ہر کوئی اﷲ سے امیدیں لگائے بیٹھا ہے، اﷲ تعالی ان پر اپنی نعمتیں نازل کرتا ہے، انھیں ان کے مطالبات پر عطا کرتا ہے اور ان میں سے بعض کو وہ اپنے مخلص و برگزیدہ بنا لیتا ہے اور وہ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے تھوڑی سی دنیا ہی میں کفایت
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۰۷۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۲۹۳)