کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 398
مفہوم عبادت کی وسعتیں: اسلام میں عبادت کا مفہوم و مدلول بڑا وسیع ہے جو ایمانِ صادق اور عملِ صالح سب کو شامل ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: { قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} [الأنعام: ۱۶۲] ’’ کہہ دیجیے ( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہ میری نماز، میری تمام عبادت، میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اﷲ تعالی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘ اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: { مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ} [النحل: ۹۷] ’’جو بھی مرد یا عورت کوئی نیک عمل کرے اور صاحبِ ایمان بھی ہو تو ہم اسے یقینا ایک نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک و صالح اعمال کا بدلہ بھی انھیں ضرور دیں گے۔‘‘ اور سورۃ العصر میں ارشاد فرمایا: { وَالْعَصْرِ ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ، اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ } [العصر: ۱ تا ۳] ’’ قسم ہے زمانے کی، انسان سراسر خسارے ( گھاٹے ) میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک و صالح عمل کیے اور جنھوں نے آپس میں حق کی وصیت کی، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔‘‘ پھر اس کے بعد زندگی کو اپنی ملکیت بنا لینا اور اسباب و ذرائع کو استعمال میں لانا ہے بایں صورت کہ آدمی کا اﷲ تعالی پر مکمل اعتماد اور اس پر پورا و صحیح توکل ہو اور اپنی تمام مال و متاع کو اﷲ تعالی کی راہ میں اس کے کلمہ کی سربلندی کے لیے وقف کر دے تاکہ دین و عبادت پوری طرح صرف اﷲ تعالی کے لیے خالص ہو جائیں اور کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۳۱۹) مسند أحمد (۵/ ۳۸۸) اس کی سند میں ’’محمد بن عبداﷲ الدؤلی‘‘ راوی مجہول ہے۔ [2] سنن أبي داود (۴۹۸۵) مسند أحمد (۵/ ۳۶۴) اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔