کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 395
کرنا چاہتا ہے وہ اتنی ہی وسیع ہو جاتی ہے اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ جواہرات چاہے مٹی ہی میں کیوں نہ ملے ہوئے ہوں وہ تو جواہرات ہی رہیں گے اور شیر تو شیر ہی ہے چاہے وہ پنجر ے میں بند کیوں نہ ہو، اور جب کوئی بخیل صدقہ کرنے کی نیت کرتا ہے تو اس کا دل کنجوسی کرتا ہے، اس کا سینہ تنگ اور اس کے ہاتھ بند ہو جاتے ہیں اور اسے یوں لگتا ہے جیسے اپنی عمر یا جگر کا کوئی گوشہ دینے لگا ہو، یہاں تک کہ وہ شخص ایک تنگ دائرے میں زندگی گزارتا چلا جاتا ہے جس میں اسے اپنے نفس کے سوا دوسرا کو ئی نظر ہی نہیں آتا، اس کے گرد و پیش میں سسکتے مسکین اسے نظر ہی نہیں آتے، بلاشبہ ایسے شخص کے ہاتھو ں میں بوجھ اور کڑیاں ڈال کر انھیں اس کے گلے میں باندھ دیا جاتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: { قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنْفَاقِ وَ کَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا} [بني إسرائیل: ۱۰۰] ’’ آپ کہہ دیجیے اگر میرے رب کی رحمت کے خزانے تمھارے اختیار میں ہوتے تو خرچ ہو جانے کے ڈر سے تم اپنا ہاتھ روک لیتے اور انسان بخیل واقع ہوا ہے۔‘‘ لیکن شیطان کے لیے صدقۂ طیبہ سے زیادہ سخت، اس کے مکر کو توڑنے اور اس کے وسواس کو زائل کرنے والی دوسری کوئی چیز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: { اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ وَ اللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَ فَضْلًا وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ} [البقرۃ: ۲۶۸] ’’شیطان تمھیں فقر و تنگدستی سے ڈراتا ہے ا ور بُرے کاموں کا حکم دیتا ہے اور اﷲ تعالیٰ تم سے اپنے فضل و کرم اور مغفرت کا وعد ہ کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ بڑی وسعتوں والا اور بڑے علم والا ہے۔‘‘