کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 374
مجددین: اﷲتعالی کا نظام ہے کہ وہ موقع بموقع مجددین کو بھیجتا ہے، جو تجدید دین کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، وہ صالحین اور مجددین، امت کی قوت و نشاط میں نئی روح پھونک دیتے ہیں، اور اس دور کے لوگوں، اپنی ذات، اپنے تلامذہ و شاگروں، اپنے پیرو کاروں اور اپنے گرد و پیش میں جہاں جہاں اﷲ تعالی چاہتے ہیں اور جس جس کام کی اﷲتعالی توفیق دیتے ہیں اس میں اصلاح کا عمل جاری کر دیتے ہیں، ان میں سے کسی کی اصلاح کا میدان بڑا وسیع ہوتا ہے اور کسی کی تجدید و اصلاح کا دائرہ قدرے تنگ ہوتا ہے۔ ایک عظیم مجدّد: ان مصلحین و مجددین میں سے تا ثیر و توفیق اور انتشار و پھیلاؤ کے اعتبار سے جس عظیم مجدد و مصلح کے نصیب میں حظ وافر آیا وہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب التمیمی رحمہ اللہ تھے۔ وہ ائمہ اسلام میں سے ایک امام تھے، اﷲتعالیٰ نے انھیں دین میں بصیرت عطا کی تھی، دعوت میں ایک اعلی منہج سے نوازا تھا اور فہم شریعت کے اعتبار سے انھیں تمام علوم میں دسترس بخشی تھی۔ دعوت وحکومت کا گٹھ جوڑ: شیخ الاسلام نے اپنے ماحول کی سب سے اہم چیز ’’اعتقاد اور توحید‘‘ کی اصلاح پر اپنی دلچسپیاں مرتکز کر دیں، ان کی دعوت کی سب سے امتیازی چیز یہ تھی کہ اﷲتعالی نے ان کی دعوت کے لیے سیاسی قوت میسر کردی، تاکہ اس دعوت و شریعت کی روشنی میں اس ملک کا سیاسی نظام طے پائے، یہ سیاسی قوت، اسلامی دعوت میں شامل ہو گئی۔ اس قوت نے دعوت کا بوجھ اٹھاتے ہوئے اور اس کی دعوت کی نصرت و تائید کرتے ہوئے عام حکومتوں کی طرح اپنے پیش نظر یہ نہیں رکھا کہ اس میں ہماری کوئی سیاسی مصلحت پوشیدہ ہے، اور اس دعوت کی مدد ہماری کوئی سیاسی مجبوری ہے، نہ یہ تھا، اور نہ لوگوں کی بھیڑ اپنے پیچھے لگانے کے لیے سیاسی حواریوں کا سا کوئی کھوکھلا نعرہ تھا۔ جیسا کہ عموماً سیاسی میدان میں کسی فکر کا توڑ کرنے کے لیے کسی فکر کی تائید میں نعرے لگائے جاتے ہیں، بلکہ یہ اس سیاسی قوت کی طرف سے ایک صحیح و شرعی دعوت کی واجب تائید کا خوشگوار فریضہ تھا، غرض دو اماموں اور دو