کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 366
ہمارے دین و ایمان کہاں ہیں کہ ہم لوگوں کی کہی کہلائی ظن و گمان کی باتوں کو بھی قبول کرتے جائیں؟ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اگر ہم ہر عالم کی بات کومحض اس بنا پر چھوڑتے جائیں کہ اس سے کسی خطا کا صدور ہوا تھا یا لوگوں نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے تو پھر ہمارے سامنے کوئی بھی ان باتوں سے بری و منزہ نہیں بچے گا۔ نعوذ باللّٰه من الہویٰ والفظاظۃ‘‘ علما و دعاۃ اور طلبہ کی ذمہ داریاں: اﷲ کے بندو! ان تفصیلات کی روشنی میں آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ افواہوں کی یہ جنگ امت کے دین، اس کے معاشرے اور اس کے امن و امان کے لیے کتنی خطرناک ہے؟ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے، اس کے انسداد، بیخ کنی اور اس کے جراثیم کو قتل کرنے کے لیے گہری منصوبہ بندی کی جائے تاکہ امت کی رہی سہی ساکھ اور اس کے اپنے دین سے تعلق کا باقی ماندہ حصہ بھی ختم نہ ہو جائے۔ علمائِ امت، طلبہ، دعاۃ اور نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ اس سازش کو سمجھیں کیونکہ دراصل وہی سب اس کا اصل نشانہ ہیں، انھیں ان لوگوں کا تر نوالہ نہیں بننا چاہیے، اور نہ انھیں ان افواہوں کے وجود اور پلنے بڑھنے کے لیے زر خیز زمین بننا چاہیے، انھیں تحقیق و تثبت میں دلچسپی پیدا کرنی چاہیے اور تاویل، اتباعِ متشابہ اور خواہشاتِ نفس کی پیروی سے احتراز و اجتناب کرنا چاہیے، اور بحرانوں، مصائب اور حوادث و مشکلات میں انھیں علم و بصیرت سے کام لینا چاہیے، ناقدانہ نظر، گہری نگاہ اور حسنِ ظن کو اپنانا چاہیے، سینوں میں آ گ بڑھکانے، شر انگیزی کرنے اور افواہوں کو پھیلانے سے دامن کش رہنا چاہیے۔ فتنوں کے زمانے میںکتاب و سنت کو تھام کر رکھنا اور سلف صالحینِ امت کے طرزِ عمل کو حرزِ جان بنانا ہی سلامتی کی ضمانت ہے۔ امتِ اسلامیہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ جس شعبۂ زندگی سے بھی تعلق رکھتا ہے وہ معاشرے کی سلامتی و استقرار اور امت کے امن و امان کے خلاف بڑے تباہ کن اثرات رکھنے والے افواہ سازی اور افواہ بازی کے اس رجحان کے خاتمے کی کوشش کرے، اسی طرح گھر، مسجد، خاندان، مدرسہ اور ذرائع ابلاغ بھی اس رجحان کے خاتمے میں