کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 362
الأنبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاف نہ کیا۔ حضرت مریم علیہا السلام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا : { یٰٓاُخْتَ ھٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْئٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا} [مریم: ۲۸] ’’اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔‘‘ کریم ابنِ کریم ابنِ کریم حضرت یوسف بن یعقوب بن ابراہیم خلیل( علیہم السلام ) تو عزت و آبرو اور شرف کو داغدار کرنے والے ان خود غرضوں کی افواہوں کے مقابلے میں طہارتِ باطن اور پاکیزگی کردار کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے، ان کا بھی پیچھا کیا مگر انھیں اﷲ نے محفوظ رکھا اور ان کے حسن کردار اورطہارت و پاکیزگی کی شہادت دیتے ہوئے اعلان فرمایا: { کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ}[یوسف: ۲۴] ’’اسی طرح ہوا، تا کہ ہم اس ( یوسف علیہ السلام ) سے برائی و بے حیائی دور کر دیں، بیشک وہ ہمارے برگزیدہ (چنے ہوئے مخلص ) بندوں میں سے تھے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ میں تو افواہ کی تاریخ اور اس کے بارے میں صحیح موقف کے سلسلہ کی زندہ و بہترین مثالیں موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ابتدائی ایام میں ہی افواہوں کا سامنا کرنا پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادوگر، مجنون و پاگل، جھوٹے اور کاہن ہونے کے الزامات لگائے گئے، کفار و منافقین نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزامات لگانے اور جھوٹ باندھنے کی حد کر دی، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ مبارکہ کے بارے میں انھوں نے جو سب سے بڑی شرارت کی وہ صریح جھوٹی تہمت کا واقعہ ہے، وہ واقعہ جس نے افواہوں کی قباحت و شناعت کو طشت از بام کر دیا، وہ تہمت و الزام جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانۂ اطہر اور خود اکرم الخلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و آبرو کو مس کر رہے تھے، حضرت ابوبکر صدیق، صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ، اور صحابی رسول حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہم کی عزت و طہارت اور آبرو کو چھو رہے تھے۔ اس افواہ سے صرف یہی قدسی نفوس نہیں بلکہ پورا شہر مدینہ منورہ اور پورا مسلم معاشرہ مہینہ بھر پریشان رہا اور اس افواہ کی لگائی آ گ میں سلگتا رہا، مسلم معاشرے کا ضمیر مبتلائے عذاب رہا، اور اس افواہ سے اس کا خون رستا رہا، اگر اﷲ کی رحمت وعنایت نہ ہوتی تو اس افواہ کی آ گ میں ہر خشک و تر
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۴۵۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۷۰)