کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 360
اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( المشاؤن بالنمیمۃ، المفسدون بین الأحبۃ، الباغون للبرآء العنت )) [1] ’’چغلی و غیبت کرنے والے، پیار و محبت کرنے والوں میں تفریق و بگاڑ پیدا کرنے والے، اور بے قصور و بَری لوگوں کے لیے اذیت و تکلیف کا باعث بننے والے۔‘‘ افواہیں معاشرتی آکاس بیل ہیں: برادرانِ عقیدہ! جس طرح نباتات میں کچھ ایسی بوٹیاں اورتاریں ہوتی ہیں جو دوسری نباتات سے چمٹ جاتی ہیں اور ان کی نشو و نما کو روک دیتی ہیں اسی طرح بلکہ ان سے کہیں زیادہ خطرناک یہ افواہیں ہیں جو معاشروں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں، اس کی دیواریں گراتی اور اس کی پوری عمارت ہی کو زنگ آلود کر دیتی ہیں۔ ان افواہ سازوں، چغل خوروں اورغیبت کرنے والوں نے کتنے بے قصور لوگوں پر ظلم کیا ہے؟ صاف دل دوستوں میں فتنے کی آگ بھڑکائی ہے اور کتنے عظیم لوگوں اور اہلِ علم و فضل حضرات پر زیادتی کی ہے؟ ان افواہوں نے کتنے بڑے بڑے جرائم کو جنم دیا؟ تعلقات کی کشیدگی کا باعث ہوئیں، کئی تہذیبوں اور ان کی عظمتوں کا ستیا ناس کیا، گھروں اور خاندانوں کو تباہ کیا اورمعاشروں کو برباد کر دیا۔ افواہوں کے بُرے نتائج و نقصانات: بعض افواہیں تو بڑی بڑی جنگوں اور فتنوں کا باعث بنیں اور انھی کے نتیجے میں عالمی سطح پر جنگوں کے شعلے بھڑک اٹھے جبکہ یہ تو معروف سی بات ہے کہ جنگ کا آغاز عموماً معمولی معمولی باتوں ہی سے ہوتا ہے اورکبھی کبھی تو کوئی بات ہوئی بھی نہ ہو تب بھی جنگ ہو ہی جاتی ہے، مگر کبھی کبار ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ شرّ بردوش بات میں جب کوئی حاسد و حاقد آدمی ہوا بھر کر رائی کا پہاڑ بنا دیتا ہے تو وہی بات فتنوں کی آگ بھڑکا دیتی ہے۔ اﷲ کے بندو! افواہوں کو ہوا دینے اور عام کرنے والے نفسیاتی مریض، ملعون فطرت، کم ہمت، کج فکر، بے راہ، بے مروت اور دینی اعتبار سے نہایت کمزور لوگ ہوتے ہیں، ان کی ذلالت و کمینگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ حسد و بعض اور حقد ان کی آنتوں تک سرایت کر چکا ہوتا ہے، جب تک کسی