کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 351
لمن جنب الفتن، ولمن ابتلي فصبر فواھا )) [1] ’’خوش نصیب ہے وہ جو فتنوں سے بچا دیا گیا، خوش نصیب ہے وہ جو فتنوں سے بچا دیا گیا، خوش نصیب ہے وہ جو فتنوں سے بچا دیا گیا، اور جو شخص کسی فتنے میں مبتلا کر دیا گیا تو اس نے اس پر صبر کیا اس کے لیے بشارت و خوشخبری ہے۔‘‘ نیز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((ستکون فتنۃ صماء بکماء عمیاء، من أشرف لھا استشرفت لہ، وإشراف اللسان فیھا کوقوع السیف )) [2] ’’بہرہ اور اندھا ( انتہائی خوفناک ) فتنہ برپا ہو گا، جس نے اس میں جھانک کر دیکھا وہ اسے بھی شامل کر لے گا، اور اس میں محض زبان کا چلانا بھی تلوار چلانے کی طرح ہی ہو گا۔‘‘ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا تذکرہ کیا اور فرمایا: ’’جب تم دیکھو گے کہ لوگوں سے عہد کی پاسداری ختم ہو گئی اور امانت داری کو خیر باد کہہ چکے اور وہ باہم یوں گتھم گتھا ہو گئے، اسے واضح کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالا، حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں اپنی جگہ سے اٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پاس بیٹھ گیا اور عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ہو، ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے گھر میں ٹکے رہو، اپنی زبان پر کنٹرول رکھو، اور صرف وہ بات کہو جسے تم اچھی طرح جانتے ہو، اور جسے تم خود ناپسند کرو اسے چھوڑ دو، اپنے خاص ذاتی معاملات تک دلچسپی رکھو اور عوام الناس کے معاملات میں دخل اندازی ترک کر دو۔‘‘[3]
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۲۶۲) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۹۶۱) اس حدیث کو امام ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ [2] حلیۃ الأولیاء (۱/ ۲۷۳)