کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 349
موجودہ فتنے اور امتِ اسلامیہ: امتِ اسلامیہ وقتاً فوقتاً فتنوں میں مبتلا کی جاتی رہی ہے اور آج پھر امت انتہائی بھیانک فتنے سے دو چار ہے، عالمی حالات نے موجیں مارتے ہوئے مہیب و مہلک فتنوں کو جنم دے دیا ہے، جن کی مشکلات و مصائب کے جھکڑ ہر طرف چل رہے ہیں، تمام عالمِ اسلام اور مسلمان ان کے نقصانات و خطرات سے دو چار ہیں حتی کہ اہلِ عقل و دانش اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے بھی پریشان ہیں، ان کے لئے بھی یہ کہنا مشکل ہو رہا ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور موجودہ صورت کا انجام کیا ہو گا؟ جبکہ عامۃ الناس جو کچھ پڑھتے اور سنتے ہیں اس پر اپنے تبصرے کیے چلے جاتے ہیں، اور کچھ خود غرض لوگ محض توقعات اور ذاتی اندازوں کی بنیاد پر بڑے بڑے جھوٹ بولتے اور باطل خیالات کا اظہار کرتے چلے جا رہے ہیں، جن کی بنیاد نہ تو ثابت شدہ حقائق پر ہے اور نہ مستند قسم کی معلومات پر، بلکہ وہ محض وہم و گمان اور ظن و تخمین پر اتنی بڑی بڑی باتیں اُگلے چلے جارہے ہیں، جن سے دنیا میں انتشار اور بد امنی پھیل رہی ہے، اور حالات کے تناؤ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ایسے فتنے، فسادات اور مصائب و مشکلات کے زمانے میں امتِ اسلامیہ پر واجب ہے کہ وہ اپنے دین کی تعلیمات کی طرف رجوع کریں، اپنا طرزِ عمل صحیح کریں اور اللہ کے بندوں پر زندگی کے تمام شعبوں اور تمام معاملات میں اللہ کی شریعت کو نافذ کریں، اپنے رب کی طرف انابت و رجوع کریں، بکثرت توبہ و استغفار کریں اور اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں کریں کہ وہ اپنے دین کی مدد و نصرت فرمائے، اپنے کلمہ کو بلند کرے، اسلام اور اہلِ اسلام کو بدترین و مکار دشمنوں کی مکاریوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ یہ ایسے عوامل ہیں جو اللہ کی رحمتوں کے نزول، مصائب و مشکلات کے زوال اور بلاؤں کو رفع کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ ربِّ کائنات کا ارشاد ہے: { لَوْلاَ تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ} [النمل: ۴۶] ’’ تم اللہ سے توبہ و استغفار کیوں نہیں کرتے تا کہ تم پر رحم کیا جائے؟‘‘
[1] مصنف ابن أبي شیبۃ (۷/ ۴۵۱) یہ الفاظ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا اور مرفوعاً مروی ہیں لیکن ہر دو کی اسانید ضعیف ہیں۔