کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 303
حقیقتِ استغفار: اہلِ ایمان اور اربابِ تقویٰ کی شان یہ ہے کہ وہ بکثرت توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ مذکورہ انعاماتِ الٰہیہ اور فضائل و برکاتِ ربانیہ صرف ان توبہ و استغفار کرنے والوں کو نصیب ہوتے ہیں جو صدقِ دل سے اور حقیقی معنوں میں توبہ و استغفار کریں، کیونکہ استغفار کوئی محض چند اقوال و کلمات کے مجموعے ہی کا نام نہیں کہ جنھیں کوئی زبان سے ادا کرتا رہے اور نہ ایسی عبارتیں ہیں کہ موقع بموقع دہرائی جاتی رہیں، بلکہ حقیقی توبہ و استغفار وہ ہے جو زبان کے ساتھ ساتھ دل سے بھی ہو اور توبہ و استغفار کرنے والا اپنے گناہوں پرشرمندہ ہو اور گناہوں کے دوبارہ ارتکاب نہ کرنے کا پختہ عزم کرے، کیونکہ یہ توبۂ نصوح کے لازمی ارکان ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور جس پر گناہوں کے کفارے اور جنت کی نعمتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: { یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ} [التحریم: ۸] ’’اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی و خالص توبہ کرو، قریب ہے کہ تمھارا رب تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔‘‘ امام قرطبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہمارے علما کا کہنا ہے: مطلوبہ استغفار وہ ہے جو گناہ پر اصرار کی گرہ کھول دے اور اس کا معنی و مفہوم دل میں ثبت کر دے، یہ استغفارمحض زبان سے ادا کیے جانے والے چند کلمات ہی نہیں ہیں، جس نے زبان سے استغفار کیا مگر اس کا دل گناہ پر مصر رہے، اس کا یہ استغفار بھی توبہ و استغفار کا محتاج ہے۔[1]اور بعض علما نے کہا ہے کہ جس کے استغفار کا ثمرہ اس کی توبہ کی تصحیح نہ ہو وہ جھوٹا ہے، کسی گناہ کا ارتکاب کرتے جانا اور اس سے توبہ بھی کرتے رہنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے پروردگار سے مذاق کر رہا ہو۔[2] توبہ بر لب سجہ برکف دل پر از ذوق گناہ معصیت را خندہ می آید بر استغفار ما