کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 301
اس نے تمھیں استغفار کرنے پر اپنے فضل و کرم اور عظیم جزا کا وعدہ فرمایا ہے، توبہ و استغفار کی کثرت اللہ کی رحمتوں، پروردگار کے لطف وکرم اور دنیا و آخرت کی فلاح ونجات کے نزول وحصول کا ذریعہ ہیں، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے : { لَوْلاَ تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ} [النمل: ۴۶] ’’تم اللہ سے استغفار کیوں نہیں کرتے کہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا: { وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} [النور: ۳۱] ’’اور اے ایمان والو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘ اگر امت میں استغفار کا عمل بکثرت ہوجائے اور عام افرادِ امت اسے اپنا لیں اور خلوصِ نیت و یقینِ قلبی کے ساتھ توبہ و استغفار کیا جانے لگے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور ملکوں سے بلاؤں کو ٹال دیتا ہے، مصیبتیں دور کر دیتا ہے اور مشکلات کو حل کر کے تمام دکھ درد دور کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: { وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ} [الأنفال: ۳۳] ’’ اگر وہ مغفرت طلب کرتے رہیں تو اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں ہے۔‘‘ توبہ و استغفار کے فضائل و برکات اور فوائد و ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ یہ موسلا دھار بارشوں کے نزول، پھلوں اور کھیتیوں میں برکت کے حصول اور نسل کی کثرت و پرورش کا باعث ہے جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے اللہ نے کہلوایا ہے: { فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ، یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا ، وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا } [نوح: ۱۰ تا ۱۲] ’’میں نے انھیں کہا کہ اپنے پروردگارسے مغفرت طلب کرو، وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے، وہ تم پر موسلا دھار بارشیں نازل کرے گا اور تمہیں مال و اولاد سے نوازے گا اور تمھارے لیے ہرے بھرے باغات و کھیت ا گائے گا اور نہریں چلا دے گا۔‘‘
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۵۱۸) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۸۱۹) اس حدیث کی سند میں حکم بن مصعب راوی مجہول اور مجروح ہے۔ دیکھیں: المجروحین لابن حبان (۱/ ۲۴۹) الکشف الحثیث (ص: ۱۰۲) تہذیب التہذیب (۲/ ۳۷۷)