کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 292
صحابہ وصحابیات کی تمنائیں اور رشک: عہدِ نبوت کی بعض خواتین نے جب یہ دیکھا کہ مردوں کو بعض معاملات میں وہ حظِ وافر حاصل ہے جو عورتوں کو نہیں تو انھوں نے اس بات کی تمنا کی کہ انھیں بھی جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت کا موقع دیا جائے تا کہ وہ بھی حق کا دفاع کرنے اور ہدایت کی نشر و اشاعت کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکیں، اور انھیں بھی مردوں کی طرح ہی وراثت ملے، اور مردوں نے یہ تمنا کی کہ انھیں نیکیوں کے معاملہ میں بھی عورتوں پر فضیلت حاصل ہو جس طرح کہ انھیں وراثت میں فضیلت حاصل ہے، تب اللہ تعالیٰ نے مرد و زن ہر دو اصناف ہی کو ان تمناؤں کے بجائے اس کام کی طرف متوجہ کیا جو ان دونوں ہی کے لیے افضل و اعلیٰ ہے، ان ہر دو کے لیے بہترین ثواب کے مواقع بنائے اور انھیں اس بات پر ابھارا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وسیع فضل و کرم کا سوال کرتے رہیں، وہ بڑا کرم کرنے والا اور عطا کرنے والا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: { وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا} [النساء: ۳۲] ’’اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت و بزرگی دی ہے، مردوں کا اس میں حصہ ہے جو انھوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انھوں نے کمایا اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘ ایک شبہ اور اس کا ازالہ: لوگوں میں سے ایک فریق کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ’’اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت و بزرگی دی ہے۔‘‘ کا مفہوم و معنی صحیح بخاری میں وارد ایک حدیث کے خلاف ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لا حسد إلا في اثنتین: رجل علمہ اللّٰه القرآن، فھو یتلوہ آناء اللیل وآناء النھار، فسمعہ جار لہ، فقال: لیتني أوتیت مثل ما أوتي فلان،
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۷۳۸)