کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 254
مال کماتے ہیں، جب وہ خود اور انکے اہل وعیال ایسے قابلِ نفرت حال میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ملنے جلنے والے ان کے برے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟ ان کی شقاوت و بدبختی کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا ہم نوالہ ہو جن کی دوستی وصحبت سوائے حسرت و ندامت کے کوئی قیمت نہیں رکھتی، کیونکہ ان کا دین و اخلاق دونوں ہی تباہ ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں ہی میں خسارہ پانے والے ہو جاتے ہیں، یہی در اصل روزِ قیامت کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: { وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا ، یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًا ، لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَنِی وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا} [الفرقان: ۲۷ تا ۲۹] ’’ اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا: ہائے کاش! میں نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی، ہائے افسوس! کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا، اس نے تو میرے پاس نصیحت آ پہنچنے کے بعد مجھے گمراہ کر دیا اور شیطان تو انسان کو ( وقت پر ) دغا دینے والا ہے۔‘‘ اللہ والو! یہ چند صفات ان لوگوں کی ہیں جو اہلِ برّ و تقوی اور اصحابِ عقل ودانش ہیں، جن کی صحبت اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی طرح ان لوگوں کے کردار کے چند خد وخال بھی آپ کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں جو انتہائی برے ساتھی اور بدترین قسم کے لوگ ہیں جن کی صحبت سے ہر ممکن گریز و اجتناب کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ فسق و فجور اور گناہوں سے لت پت رہنے والے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کی نسبت لوگوں کے مختلف مراتب و درجات ہیں، ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو بھلائی و فضیلت کی طرف لپکنے والے ہیں، اور کچھ دوسرے ہیں جو شرّ و گناہ کے قریب تر ہیں، اور عقلمند وہ ہے جو لوگوں کو شریعت اور عدل و انصاف کے معیار پر تولتا ہے، جس کی خیر وبھلائی اس کے شرّ پر غالب آ گئی اور جس کا نفع اس کے ضرر و نقصانات پر غالب آ گیا وہ اسے اپنا خلیل و دوست بناتا ہے اور اسے اپنی صحبت کے لیے ساتھی منتخب کرتا ہے، اور جو لوگ ان کے بر عکس ہیں وہ دوسرے کردار و عاداتِ