کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 251
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (( ما من شيء أدل علی شيء من الصاحب علی الصاحب )) ’’ کسی ساتھی کے اخلاق و عادات اس کے دوسرے ساتھی کی عادات واطوار کا پتہ دینے والی سب سے اہم چیز ہوتے ہیں۔‘‘ اور بعض دانشمندوں نے کہا ہے: ’’کسی آدمی کے بارے میں وہی گمان کیا جا سکتا ہے جو اس کے ساتھی کے بارے میں کیا جا رہا ہو۔‘‘ صحبتِ صالح کے لیے اسلام کا اہتمام: یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صحبت و تعلقات کے سلسلے میں خصوصی اہتمام اور دلچسپی سے کام لیا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے تمام افراد کو اس پر خاص توجہ دلائی ہے کہ نیک و صالح دوست اور متقی و پرہیز گار ساتھیوں کا انتخاب کرو۔ چنانچہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( لا تصاحب إلا مؤمنا، ولا یأکل طعامک إلا تقي )) [1] ’’ کسی مومن کے سوا کسی کا ساتھی نہ بنیں اور کسی متقی و پرہیز گار کے سوا آپ کا کھانا کوئی نہ کھائے۔‘‘ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحبتِ صالح اور صحبتِ طالح دونوں کو ایک مثال کے ذریعے خوب سمجھایا ہے جس سے ہر شخص اچھی و بری صحبت کے فوائد یا مضر اثرات و نقصانات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت أبو موسی أشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( إنما مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر، فحامل المسک إما أن یھدیک، وإما أن تبتاع منہ، وإما أن تجد منہ ریحا طیبۃ، ونافخ الکیر إما أن یحرق ثیابک، وإما أن تجد منہ ریحا خبیثۃ )) [2]
[1] فتح الباري (۴/ ۳۲۴)