کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 249
ہے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرکے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے اس میں فساد وبگاڑ پیدا کرنے سے سختی کے ساتھ روکا ہے۔ اگر کوئی شخص احوالِ عالم پر غور کرے تو اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اس دنیا کی اصلاح اور درستی اگر کہیں رہی ہے یا ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسی کی عبادت کی برکت سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ہے۔ ’’دنیا میں اس وقت جس قدر بھی فتنے سر اٹھائے ہوئے ہیں، فساد و بگاڑ پھیلا ہوا ہے، مصائب و مشکلات اور بلائیں ہیں، قحط و خشک سالی ہے، دشمن کا تسلط و غلبہ ہے یا دیگر ایسے امور ہیں ان کا سبب صرف اور صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسروں کی طرف دعوت دینا ہے، اور جس نے بھی حقیقی معنوں میں غور و فکر کیا اور ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک کے حالات پر گہری نظر ڈالی حتی کہ زمین اور اس کے تمام مکینوں اور خزینوں پر اللہ کے وارث ہو جانے، اور وہی دراصل بہترین وارث ہے، (قیامت آ جانے) تک کے حالات پرتأمل کیا، وہ اس حقیقت تک بآسانی پہنچ سکتا ہے کہ خاص اس کی اپنی ذات ہو یا دوسرے عام لوگ ہوں ہر جگہ اور ہر کسی کے فساد وبگاڑ کا سبب شروع سے یہی چلا آ رہا ہے۔‘‘[1] اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اصلاح و درستی کرنے والوں میں سے ہو جاؤ، اس طرح یقینا تم ان تمام جہانوں کے خالق و مالک اور پروردگار کی رضا و خوشنودی کو پا لو گے اور اللہ تعالی کے نزدیک تمھارا شمار ان لوگوں میں سے ہو جائے گا جو دنیا وآخرت میں فوز وفلاح پانے والے کامیاب و کامران اور شاد دل و شاد کام ہوں گے۔
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۸۳۳) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۳۷۸) مسند أحمد (۲/ ۳۰۳) اس حدیث کو امام ترمذی اور علامہ البانی نے حسن اور امام حاکم و ذہبی نے صحیح کہا ہے۔