کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 198
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جو چیز صریح عقل سے معلوم ہو اس کے متعلق یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ شریعت اس کی مخالفت کرے بلکہ منقول چیز کی صریح معقول کبھی مخالفت نہیں کرتا، اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ انبیاء و رسل ایسی باتوں کی خبر نہیں دیتے جو عقلی اعتبار سے محال ہوں بلکہ ان کی خبر دیتے ہیں جو عقلی لحاظ سے حیرتناک ہوں اور وہ ایسی چیزوں کی خبر نہیں دیتے کہ عقل جن کے نہ ہونے کو جانتی ہو بلکہ ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہیں کہ عقل جن کی پہچان سے عاجز آجائے۔‘‘[1] وحی کے بغیر عقل راہنمائی سے عاجز ہے: اﷲ کے بندو! یہ بات بھی اس چیز کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کی مذمت کی ہے جو اپنی منافقت کو اپنی عقل کی طرف لوٹاتے ہیں۔ فرمان ربانی ہے: { اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ} [البقرۃ: ۷۵] ’’تو کیا تم طمع رکھتے ہو کہ وہ تمھارے لیے ایمان لے آئیں گے، حالانکہ یقینا ان میں سے کچھ لوگ ہمیشہ ایسے چلے آئے جو اﷲ کا کلام سنتے ہیں، پھر اسے بدل ڈالتے ہیں، اس کے بعد کہ اسے سمجھ چکے ہوتے ہیں اور وہ جانتے ہیں۔‘‘ یعنی یہ کہنے کے بعد کہ ہم اپنی عقلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کلام سے واقف ہوئے ہیں حالانکہ وہ اس کے باطل ہونے کو اچھی طرح جانتے ہیں جس کا انھوں نے اپنی عقل سے ادراک کر لیا ہے۔ اس بات کی تاکید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سردارانِ کفار کے حوالے سے کہا: { اَمْ تَاْمُرُھُمْ اَحْلاَمُھُمْ بِھٰذَآ اَمْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ} [الطور: ۳۲] ’’یا انھیں ان کی عقلیں اس بات کا حکم دیتی ہیں، یا وہ خود ہی حد سے گزرنے والے لوگ ہیں؟‘‘ یعنی ان کی عقلیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ عقل مستقل اعتبار سے دین کی طرف راہنمائی نہیں کرسکتی۔
[1] درء التعارض (۱/ ۱۴۷)