کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 191
یہ عمل بہت بڑی گندگی کی شکل اختیار کر چکا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی خوشنمائی کے نتائجِ بد سے محفوظ رکھے، بلکہ یہ ایک ایسا کامل عیب ہے جس کا عقل پرست حضرات تو پرچار کرتے ہی ہیں لیکن اہل شریعت بھی اس کی سمع خراشی سے محفوظ نہیں رہے! عقل پرست ۔۔۔ شتر بے مہار: اللہ کے بندو! ایسے شخص سے کچھ بعید نہیں جو اپنی عقل کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے بغیر کسی ضابطے اور قانون کے اللہ تعالیٰ کی شریعت میں منہ اٹھا کر گھومتا پھرے اور اسے نشانہ اعتراض بنائے۔ اس میں کوئی ایسی تعجب کی بات نہیں۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس میں تھوڑی سی عقل بھی ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا میں خرابی اور فساد رائے کو وحی پر ترجیح دینے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، عقل کی سب سے بڑی نافرمانی اس کا کتاب اللہ سے اعراض کرنا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی وحی ہے اور اس کے رسول اس سے ہدایت لیتے ہیں، نیز اس کا لوگوں کے کلام کو اللہ تعالیٰ کے کلام کے مقابلے میں پیش کرنا بھی ایک جرم ہے، لہٰذا عقل کے اس فساد سے بڑھ کر کون سا فساد ہے؟‘‘[1] لہٰذا اے لوگو! یہ کس قدر حیرتناک کیفیت ہے کہ حق بالکل قریب ہو لیکن اس تک رسائی نہ ہو؟ ان لوگوں کا حال اس اونٹ کا سا ہے جس کے متعلق شاعر کا کہنا ہے ؎ کالعیس في البیداء یقتلھا الظمأ والماء فوق ظھرھا محمول ’’صحراء میں اس پیاس کے مارے اونٹ کی طرح جس کی پشت پر پانی رکھا ہوا ہو۔‘‘ (لیکن اس تک اس کی رسائی نہیں ہوتی) اگر کوئی شخص ایک ہی لقمے سے اچھو لگنے کی وجہ سے پانی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے تو جس کو پانی ہی سے اچھو لگ جائے وہ کس چیز کی طلب میں نکلے گا؟! انسانی عقل کی نارسائی: اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے قوانین کے ساتھ جھگڑا کیا جاتا ہے نہ عقل کے ساتھ ان کا
[1] إعلام الموقعین (۱/ ۶۸)