کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 189
اندھی تقلید سے آزاد عقل: پھر وہ عقل انسانی جو اپنے کام کو مکمل انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو وہ ایسی عقل ہے جو خواہشات اور اندھی تقلید کے پھندے سے آزاد ہو، ایسے منحرف اور گمراہ افکار و خیالات سے متاثر ہونے والی نہ ہو جو گمراہی کی طرف لے جانے کا سبب بن سکتے ہوں۔ اسی طرح یہ اپنی قوتوں کو اندھی پیروی میں بے کار نہیں کردیتی جو بدترین انحراف اور ہلاکت خیز گمراہی میں پھنسا سکے۔ یہ ہے عقل جو اسلام کے پیغام کو صحیح طور سے اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن وہ لوگ جنھوں نے اپنی عقلوں کو بیڑیاں پہنادی ہیں اور انھیں دین کے صاف شفاف سر چشموں پر آنے سے روک دیا ہے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: { اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ ، وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَھُمْ وَ لَوْ اَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ ھُمْ مُّعْرِضُوْنَ} [الأنفال: ۲۲، ۲۳] ’’بے شک تمام جانوروں سے برے اﷲ کے نزدیک وہ بہرے،گونگے ہیں، جو سمجھتے نہیں۔ اور اگر اﷲ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انھیں ضرور سنوا دیتا اور اگر وہ انھیں سنوا دیتا تو بھی وہ منہ پھیر جاتے، اس حال میں کہ وہ بے رخی کرنے والے ہوتے۔‘‘ اس لیے قیامت کے دن اس طرح کے لوگوں کا یہ جواب ہوگا: { وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ ، فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِھِمْ۔م فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ} [الملک: ۱۰، ۱۱] ’’اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔‘‘ عقل کی رسائی اور نا رسائی سامعین محترم! گذشتہ گفتگو کا خلاصہ ابو القاسم اصفہانی کے الفاظ میں یہ ہے کہ عقل کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ توفیق الٰہی کی حامل عقل۔ ۲۔ رسوائی کے دھوکے میں آنے والی عقل۔