کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 163
کام اللہ تعالیٰ نے حلال کیے ہیں ان کے ہوتے ہوئے حرام کاریوں کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: { فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ، وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ } [الانشراح: ۷، ۸] ’’تو جب تو فارغ ہوجائے تو محنت کر۔ اور اپنے رب ہی کی طرف پس رغبت کر۔‘‘ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس : الصحۃ ، والفراغ )) [1] ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ خسارہ اٹھاتے ہیں، ایک تندرستی اور دوسری فراغت۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھ۔ ان میں سے ایک آپ نے یہ شمار کی کہ مصروفیت سے پہلے پہلے فراغت کو غنیمت جان۔‘‘[2] یہ فراغت ہی انحراف اور فساد کی تمام شکلوں کا سب سے بڑ ا سبب ہے، جب اس سے فائد ہ نہ اٹھایا جائے تو نافرمانی میں صرف ہونے کی وجہ سے یہ الٰہی انتقام اور مصیبت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ تفریح شرعی حدود کے اندر ہو: ۴۔ میرے ہم عقیدہ بھائیو! جائز انداز میں سیر وتفریح کرنے اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے دل بہلانے (Entertainment)میں کوئی عیب اور مضائقہ نہیں بلکہ بعض اوقات شرعی مقاصد کے لیے یہ مطلوب بھی ہوتی ہے جس طرح حدیثِ حنظلہ میں ہے کہ ’’ولکن ساعۃ و ساعۃ‘‘[3]لیکن بہر کیف اس کا شرعی حدود کے اندر رہنا ضروری ہے۔ اسلام مسلمانوں پر کوئی ایسی پابندی نہیں لگاتا کہ ان کو سیر وتفریح سے منع کرے یا وہ اپنے اہل وعیال کو اس کے مواقع مہیا کریں اور اس کے لیے شرعی وسائل اختیا ر کریں۔ لیکن اگر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو ایسے کاموں میں صرف کیا جائے جو ایمان کمزور
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۴۱۲) [2] المستدرک (۴/ ۳۴۱) [3] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۵۰)