کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 148
تفریح شرعی ضوابط کی پابند ہے: سامعین کرام! حاصل گفتگو یہ ہے کہ تفریح طبع اور دل لگی کو شرعی ضوابط کا پابند کرنا چاہیے۔ ان میں سے کچھ چیزیں اگر اللہ تعالیٰ کی حدود سے بغاوت کریں تو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا} [البقرۃ: ۲۲۹] ’’یہ اﷲ کی حدیں ہیں، سو ان سے آگے مت بڑھو۔‘‘ اس لیے جو خوشی منانا چاہتا ہے اور کھیل کود کا دلدادہ ہے تو اسے چاہیے کہ اس کی خوشی طاقتور پرہیز گاروں کی سی ہو جس میں نہ کوئی کجی ہوتی ہے اور نہ بغاوت کا کوئی شائبہ، بلکہ وہ شور و غل سے پرہیز کرے جو ذکر کرنے والے کو پریشان کر دیتا ہے اور شکر گزار کی دل شکنی کرتا ہے۔ اﷲ کی قسم! یہاں امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ نے کتنی خوبصورت گفتگو فرمائی ہے جس میں وہ تفریح میں حد سے بڑھنے والوں کی حالت بیان کرتے ہیں کہ وہ اس کی طرف ایک پیاسے کی طرح بھاگتے ہیں، نہ حق کے کسی نشان کی پیروی کرتے ہیں اور نہ حدود کا کچھ خیال کرتے ہیں۔ وہ ’’احیاء العلوم‘‘ میں ان کی خوشی کے متعلق بیان کرتے ہیں: ’’یہ دل کو تشویش میں مبتلا کردینے والی چیز ہے، سوائے ان لوگوں کے جو مضبوط ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی عقل اور دین دونوں کو بالکل ہلکا اور حقیر جانا ہے کیونکہ ان کا مقصد صرف ریاکاری، نمود و نمائش اور شہرت کمانا ہے، ان کا کوئی مفید مقصد ہے نہ یہ اپنے آپ کو کوئی ادب سکھانا چاہتے ہیں، یہ کڑھائی والے کپڑے پہنتے ہیں، سیر سپاٹے کرتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ہر کالی چیز کھجور ہی ہوتی ہے، ایسا شخص کس قدر احمق اور موٹی عقل کا مالک ہے جو چربی اور سوزش کے درمیان فرق نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ فارغ جوانی کو ناپسند فرماتے ہیں ان لوگوں کو یہ کام کرنے پر صرف جوانی اور فراغت نے اکسایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: { وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوًانِ انْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ} [الجمعۃ: ۱۱] [1]
[1] إحیاء علوم الدین (۲/ ۲۵۰)