کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 147
’’یہاں باطل اعمال سے مراد وہ اعمال ہیں جن میں کوئی فائدہ نہیں مگر وہ حرام بھی نہیں، اس میں ان لوگوں کے لیے رخصت ہے جو مفید کام پر صبر نہیں کر سکتے اور جس قدر اس کی ضرورت ہے اس میں یہی حق ہے خصوصاً ان اوقات میں جن میں اس کا تفریح کا تقاضا ہو، جیسے: عیدین، شادی بیاہ کے مواقع اور گھر سے باہر رہنے والے کا گھر میں آنا وغیرہ۔‘‘[1] امام ابن العربی رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں آپ کے لفظ ’’باطل‘‘ سے مراد حرام نہیں بلکہ آپ کی یہ مراد ہے کہ اس میں کوئی ثواب نہیں اور وہ صرف دنیا کے لیے ہے، جس کا آخرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور جائز میں سے باطل ہے۔‘‘ غافل کر دینے والی تفریح حرام ہے: اللہ کے بندو! یہ ہے جائز تفریح۔ رہا سوال حرام تفریح کا یا ایسی تفریح کا جو حرام کا سبب بن سکتی ہو تو ۔اللہ تمھاری حفاظت فرمائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ بات ذرا دھیان سے سنو جس کا ذکر انھوں نے اپنی صحیح میں کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’باب کل لھو باطل، إذا أشغلہ عن طاعۃ اللّٰه ‘‘ ’’یعنی ہر وہ تفریح باطل ہے جب وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے دور کردے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یعنی وہ شخص بھی جو نفل نماز، تلاوت قرآن، ذکر، یا قرآن کریم کے معانی پر غور کرتا رہے حتیٰ کہ جان بوجھ کر فرض نماز کا وقت نکال دے، اس ضابطے کے تحت آتا ہے جب یہ صورتحال ان اشیا کے متعلق ہے جن کی رغبت دلائی جاتی ہے اور جنھیں کرنا مطلوب و مقصود ہے، تو جو ایسے نہیں ان کا کیا حال ہوگا؟!‘‘[2]
[1] الاستقامۃ (ص: ۲۷۷) [2] فتح الباري (۱۱/ ۹۱)