کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 143
’’میں نے انسان کو دیکھا ہے کہ اس پر پابندیوں میں سے مشکل ترین چیزوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، اور جو سب سے وزنی بوجھ اس پر ڈالا گیا ہے وہ اس کا اپنے نفس کی خاطر داری کرنا ہے جس کے لیے یہ پابندی ہے کہ جس چیز کے ساتھ نفس محبت رکھے اس سے اس کو روکے رکھے، اور پھر ہر ناپسندیدہ چیز پر صبر کرے، لہٰذا میں نے یہ درست سمجھا کہ صبر کی راہ کو تفریح طبع اور نفس کے ساتھ خوشگوار انداز اپنا کر طے کیا جائے۔‘‘ ابوالوفا ابن عقیل بھی ایسی ہی باتیں کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں: ’’ایک سمجھدار انسان جب اپنی بیوی اور لونڈی کے ساتھ خلوت اختیار کرتا ہے، اس کے ساتھ دل لگی اور ہنسی مذاق کرتا ہے تو وہ بیوی اور اپنے نفس کا حق ادا کرتا ہے، اور جب اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے تو ان کے سامنے ایک بچے کی طرح پیش آتا ہے اور بسااوقات سنجیدگی کو ایک طرف رکھ دیتا ہے۔‘‘ تفریح کا اسلامی اور غیر اسلامی مفہوم: اے اللہ کے بندو! کھیل کود، ہنسی مذاق اور تفریح طبع کے مفہوم کے متعلق یہ چند سنہری اقوال ہیں جن سے اس بات کی تاکید اور تائید ہوتی ہے کہ اسلام نے اس پہلو پر بھرپور توجہ دی ہے، تاہم ہم یہاں تفریح طبع کے متعلق اسلامی مفہوم کے درمیان اور موجود زمانے میں کھیل کود اور ہنسی مذاق کے درمیان وسیع خلیج کی وجہ بیان کرنا چاہتے ہیں جو یقینا وسیع تحقیق کی محتاج ہے جس کا مقصد اس تحقیقی پروجیکٹ کے دائرہ میں رہ کر اس سے استفادہ کرکے ایک مثالی طریقے تک پہنچنا ہے۔ لہٰذا مثبت اور منفی تفریحی سرگرمیوں پر تحقیق کرکے ان سرگرمیوں پر عمل کرنے والے طبقے کے دینی و معاشرتی بیک گراؤنڈ کے درمیان اور ان سرگرمیوں کے درمیان ربط پیدا کرنا چاہیے، اور یہ بھی ذکر کرنا چاہیے کہ تفریح اور عمومی مصلحت کے قریب کردینے والے عوامل اور اللہ تعالیٰ کو راضی یا ناراضی کرنے والے عناصر تک پہنچنے میں تخلیقی صلاحیت بروئے کارلانے کا کس حد تک امکان اور فائدہ ہے؟ پھر دینی اور معاشرتی تقاضوں کے نتائج و حقائق کے درمیان اور ذاتی بدنما خواہشات کے تقاضوں کے