کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 99
اوس اور خزرج۔ ان کو اپنے قبیلے والے تو مانتے تھے دوسرے قبیلے والے ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ صدیق کے سوا کوئی شخصیت نہ تھی جس پر سارے مسلمانوں کا اتفاق ہو۔ کیوں ؟ اس لئے کہ خود صحابہ کہتے ہیں ہم نے نبی سے جب بھی بات سنی۔ نبی نے یہ نہیں کہا میں نے ایسا کیا۔ فرمایا میں نے اور میرے ابوبکر نے ایسا کیا ہے میں نے اور میرے ابوبکر نے سفر کیا میں نے اور ابوبکر نے قیام کیا میں نے اور میرے ابوبکر نے طعام تناول کیا میں چلا میرے ساتھ ابوبکر چلا میں بیٹھا میرے ساتھ ابوبکر بیٹھا میں نے قبول کیا میرے ساتھ ابوبکر نے قبول کیا میں نے بات کہی میرے ساتھ ابوبکر نے بات کہی اور یہاں تک کہ ایک دفعہ نبی نے سودا کیا بات ہوئی اس نے کہا گواہ کون ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ابوبکر موجود نہیں فرمایا میرا گواہ ابوبکر ہے۔ لوگ تعجب کرتے ہیں۔ کہنے لگے ابوبکر تو موجود ہی نہیں اس کو گواہ کیسے بناتے ہو؟ اس طرح بناتا ہوں کہ میری کہی ہوئی بات کو ابوبکر کبھی رد نہیں کر سکتا۔ یہ ابوبکر تھے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی صدیق کو اپنے سے جدا نہیں کیا اور رب کو سنگت اتنی پیاری لگی جوڑ اتنا پسند آیا کہ جبرائیل امین آئے اور بتلایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جس کے ساتھ تجھ کو اتنا پیار ہے سن لے تیرے مرنے کے بعد تیری قبر میں بھی تیرے ساتھ ہو گا حشر کو جب تو اٹھایا جائے گا تیرے ساتھ ابوبکر اٹھایا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو حوض کوثر پہ بیٹھا ہوا ہو گا تیرے داہنے ہاتھ ابوبکر ہو گا اور نبیوں میں سب سے پہلے جب تو جنت کے دروازوں پہ دستک دے رہا ہو گا تو سارے نبیوں کی امتوں میں سے سب سے پہلے تیرا ابو بکر جنت کے دروازے پہ دستک دے رہا ہو گا۔ وہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ ساری کائنات جانتی تھی کہ ابوبکر کا مقام کیا ہے ؟ اور سن لو! ایک بات یاد رکھو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا تھا وہ ابوبکر کو مانتا تھا جو ابوبکر کو نہیں مانتا تھا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں مانتا تھا۔ یہ مقام صرف ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو حاصل ہے۔ کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔ اسی لئے جب مرض الموت کے ایام میں نبی اکرم کے دروازے