کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 98
عباس سے بڑی کوئی دوسری شخصیت موجود نہیں تھی سب سے بڑی شخصیت یہ تھی عمر کے لحاظ سے مرتبے کے لحاظ سے شخصیت کے لحاظ سے سب سے بڑے یہ تھے۔ حضرت عباس بنو ھاشم کے سردار ان کی کیفیت یہ تھی کہ یہحضرت علی کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ خود بنو ہاشم ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ یہ کیفیت تھی اور فاروق اعظم کے زمانے میں امامت‘ حکومت‘ سلطنت‘ قیادت‘ سیادت تو بڑی بات ہے صرف ایک باغ کے معمولی انتظام پر حضرت عباس نے حضرت علی کو بڑا ماننا گوارہ نہیں کیا تھا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باغ فدک کے انتظامات حضرت علی کے سپرد کرنے چاہے۔ حضرت عباس غصے میں سرخ ہو گئے فرمانے لگے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں میرے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو کوئی انتظام سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ ایک باغ کی قیادت سنبھالنے کے لئے اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ پھر بنو ہاشم میں حضرت عباس کے بعد دوسری بڑی شخصیت حضرت علی کے اپنے بڑے بھائی کی تھی۔ حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ۔ یہ جناب علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بھائی تھے۔ حضرت علی سے دس سال بڑے تھے۔ یہ وہی عقیل ہیں جن کے بیٹے جناب مسلم حضرت حسین کے قاصد بن کر کوفہ والوں سے بیعت لینے کے لئے گئے تھے۔ خود حضرت عقیل کا عالم یہ تھا کہ سگا بھائی ہے۔ ماں زاد باپ جایا۔ ان کی اپنی حالت یہ تھی کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ کی جنگ میں انہوں نے اپنے بھائی کا ساتھ نہیں دیا حضرت معاویہ کا ساتھ دیا ہے۔ یہ بنو ہاشم کے سردار تھے۔ یہ بنو ہاشم کے لوگ اپنے خاندان کے لوگ بھی حضرت علی کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ یہ حضرت علی کے کمانڈر انچیف تھے۔ حضرت علی کو ان سے اتنی محبت اور اتنا پیار تھا کہ شیعہ کتابوں میں آیا ہے الارشاد میں شیخ مفید لکھتا ہے کہ حضرت علی ایک دن حضرت حسن کے گھر میں رہتے ایک دن حضرت حسین کے گھر میں رہتے اور ایک دن حضرت عبد اللہ ابن عباس کے گھر میں رہا کرتے تھے۔ اتنا پیار تھا۔ خود یہ عبد اللہ ابن عباس حضرت علی کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ کسی ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جس کے بارے میں کوئی دوسرا شخص اختلاف کرنے کی جرات نہ رکھتا ہو۔ حضرت سعد ابن عبادہ انصار کے سردار تھے لیکن اندر سے اوس قبیلہ ان کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ دو قبیلے تھے