کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 96
تو خدشہ تھا کہ وہ پیش پا افتادہ مسائل سے عہدہ براء نہ ہو سکے گی اور مسائل اتنے الجھ جائیں گئے کہ اس کا ان سے نکلنا محال ہو جائے گا اور وہ سلطنت جس کی بنیاد رحمت کائنات نے رب العلمین کی راہ نمائی میں خود اپنے ہاتھ سے رکھی تھی وہ ریاست تباہ ہو جائے گی۔ خدشہ موجود تھا اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس ریاست کی فرمانروائی کے لئے ایک ایسی شخصیت کو نامزد… سنو لفظ… نامزد کر دیا لیکن مسلمانوں سے ان کے انتخاب کا حق نہیں چھینا۔ اشارات فرما دئیے لیکن ان پر کسی کو اپنی طرف سے مسلط کرنا پسند نہیں کیا۔ اشارات کر دئیے‘ نامزدگی کر دی‘ مسلط نہیں کیا۔ ایسی شخصیت کو جس کے بارے میں پورے مسلمانوں کے درمیان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے صحابہ کے درمیان احترام اور عقیدت کے علاوہ کوئی جذبہ موجود نہیں تھا اور ایسی شخصیت نبی کے سارے صحابہ میں صرف ایک تھی۔ بات کو توجہ سے سنو۔ آج میں ثابت کرتا ہوں ایسی شخصیت نبی کے تمام صحابہ میں صرف ایک تھی دوسری کوئی نہ تھی اور وہ شخصیت اس کی تھی جس کے بارے میں صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے نام کو کبھی بھی نبی کے نام سے الگ نہیں سنا ہے۔ سارے صحابہ کے درمیان اس کی شخصیت متفقہ علیہ تھی اور وہ شخصیت تھی صدیق اکبر ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی۔ پورے صحابہ کے درمیان صدیق کے بارے میں کوئی اختلاف موجود نہ تھا اور ہر شخص کے بارے میں اختلاف موجود تھا۔ آج بات کو یاد کر کے جانا۔ علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ یہ بنو ہاشم کے آدمی تھے۔ ان کے قبیلے کا نام بنو ہاشم تھا۔ نبی پاک کا اپنا قبیلہ تھا۔ حضور کے قبیلے کے فرد تھے‘ اسلام کے بے باک سپاہی تھے مسلمانوں کے مایہ ناز سالار تھے کمانڈر تھے نبی کے محبوب تھے حضور کی بیٹی کے شوہر تھے حضور کے نواسوں کے باپ تھے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ خود بنو ہاشم کے لوگ ان کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ خود اپنا قبیلہ نہیں مانتا تھا اور سنو اور حیران رہ جاؤ۔ یاروں نے افسانے بنا رکھے ہیں۔ حالت یہ تھی اپنا قبیلہ تو بڑی بات‘ قبیلے کا سردار بھی نہیں مانتا تھا۔ اپنی برادری کا سردار بھی ان کو نہیں مانتا تھا۔ نبی کے بعد برادری کا سردار نبی کا چچا تھا۔ وہ چچا کہ نبی نے جس کو اپنا باپ کہا ہے۔ کہا ان عباس عمی صنو ابی عباس میرا چچا ہی نہیں میرا باپ بھی ہے۔