کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 93
کمزوری اپنے جسم کے اندر پاتا ہوں اور بولنے کی سکت اور ہمت اپنے اندر موجود نہیں پاتا کہ مسلسل سفر دن کے سفر رات کی تقریریں اس سے صحت بالکل تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ آج بھی رات کو ساڑھے تین بجے کے قریب میں گھر پہنچا۔ کوئی ایک بجے کے قریب سیالکوٹ میں جلسہ ختم ہوا۔ پھر وہاں سے سفر کر کے پہنچا۔ اب صبح اٹھنے کی سکت نہیں تھی۔ ایک تو بات یہ ہوتی ہے کہ سفر مار دیتے ہیں پھر تقریر میں بہت زیادہ ہمت اور کوشش صرف کرنا پڑتی ہے۔ خصوصا کسی ایسے مسئلے کو سمجھانے کے لئے جو عام لوگوں کے فہم سے بالاتر ہو اور اس مسئلے پر گرد و غبار کی بہت سی تہیں پڑی ہوئی ہوں اور پھر گرمیوں کا موسم ٹھنڈا پانی آدمی کثرت سے پیتا ہے اور پھر اس کے بعد خود سفر کرنا ڈرائیو کرنا۔ اس سے میں سمجھتا ہوں کہ اتنی سخت کوفت اور تکلیف ہوتی ہے کہ جس پر بیتتی ہے صرف وہی جانتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ہم نے کبھی بیٹھ کے خطبہ نہیں دیا۔ کیونکہ ہمارا مسلک یہ ہے کہ خطبہ عبادت ہے۔ ہم اور لوگوں کی طرح خطبہ کو جمعہ سے الگ فضولیات کا کوئی حصہ نہیں سمجھتے کہ یہ ایک فضول بات ہے جو مولوی کرسی پر بیٹھ کر رہا ہے۔ کوئی سنے نہ سنے۔ ہمارے نزدیک خطبہ جمعہ جمعہ کا حصہ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جمعہ اس نے پڑھا ہے اس نے ادا کیا ہے جس نے صرف نماز ہی نہیں پڑھی بلکہ پورا خطبہ بھی سنا ہے اور خطبہ سننا جب تک آدمی سنتا رہے عبادت شمار ہوتا ہے اور جب تک آدمی خطبہ کی مجلس میں بیٹھا رہے اللہ کے فرشتے اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں درج کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے ہمارے نزدیک کھڑے ہو کر خطبہ دینا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ماسوائے مجبوری کے اور شاید میری زندگی میں‘ اٹھارہ سال کے عرصہ میں یہ تیسرا یا چوتھا موقع ہے کہ مجھ میں کھڑا ہونے کی سکت اور ہمت نہیں ہے۔ ایمانداری کی بات ہے بعض مسئلے صرف درس میں بیان ہو سکتے ہیں یا خطبے میں۔ تقریر میں بیان نہیں ہو سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تقریر آدمی چاہے کتنی لمبی کرے تقریر کا وقت مختصر ہوتا ہے‘ محدود ہوتا ہے۔ اس کے اندر کسی انتہائی اہم اور اختلافی موضوع اور مضمون سے انصاف نہیں ہو سکتا۔ آدمی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو اختصار کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ پھر اختصار کی وجہ سے بڑی اہم باتیں باقی رہ جاتی