کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 88
کوئی علاج ؟ نہیں۔ اور مردے بھی آزما لئے۔ اسی لئے تو ایک مجاور[1] کو پنجاب کا گورنر بنایا گیا ہے۔ مردے بھی آزما لئے کوئی کام نہیں آیا۔ ہائے… اقبال تو کس وقت یاد آیا ہے۔ اس نے کہا مسلمان امت تیری بیماری بھی پرانی تیرا نسخہ بھی پرانا تیری بیماری بھی پرانی تیرا علاج بھی پرانا تری مرض بھی پرانی ترا طبیب بھی پرانا وگرنہ شفا نہیں مل سکتی وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی او جاؤ علاج کروانا ہے تو مکے میں جاؤ یا مدینے میں جاؤ۔ امت کو پتہ چل گیا ہے کہ اب امت کے دردوں کا مداوا امت کی بیماریوں کا علاج مکہ مدینہ کے سوا کہیں موجود نہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں آج کا دور ہمارا دور ہے اہلحدیث کا دور ہے۔ ۔انشاء اللہ اگر بیمار کو گور ٹھکانے نہیں لگانا چاہتے تو علاج کے لئے آجاؤ۔ ہمارے پاس آؤ اور ہم تمہیں گوجرانوالہ سے پڑیا لا کے نہیں دیں گے سیالکوٹ کی نہیں دیں گے ملتان کی نہیں دیں گے ہم تمہیں آب حیات دیں گے تو یا مکہ سے لا کے دیں گے یا مدینہ سے لا کے دیں گے اور انشاء اللہ اب اس ملک کی تقدیر کو رب نے اہلحدیث کے منشور کے ساتھ معلق کر دیا ہے۔ اب اور نظام چلاؤ گے تو تقدیر بگڑے گی اہلحدیث کا نظام چلاؤ گے تو تقدیر بنے گی اور اہلحدیث کا نظام کیا ہے ؟ سن لو! اہلحدیث کا دستور قرآن ہے اور اہلحدیث کا منشور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ سن لو! اب اس نظام کو لانے کے لئے صرف تمہارے خونوں کی ضرورت ہے‘ تمہاری ضرورت ہے۔ کہیں تم سو نہ جانا۔ پھر کہو زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستان کہتے کہتے آج زمانہ شوق سے سن رہا ہے۔ آج زمانہ اہلحدیث کی یلغار کا منتظر اہلحدیث کی للکار کا منتظر اہلحدیث کی پکار کا منتظر ہے اور انشاء اللہ ہم اہلحدیث کے
[1] مخدوم زادہ سجاد حسین قریشی اس زمانے میں گورنر پنجاب تھے۔