کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 87
تو کہیں اللہ گناہ تو بہت ہیں لیکن ان گناہوں کو شہادت کی چادر کے خون میں ڈھانپا ہوا ہے۔ اس سے خوشگوار موت کیا ہے؟ لوگو! میں یہ کہہ رہا تھا مجھے تمہاری ضرورت ہے اور ضرورت ہے اس ملک میں قرآن کو غالب کرنے کے لئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو غالب کرنے کے لئے۔ انشاء اللہ میں تمہیں ایک خوشخبری سناتا ہوں یاد رکھنا۔ ہم زندہ رہے تو ہم سے پوچھنا۔ مر گئے تو دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دینا۔ بات کو یاد رکھنا یہ صدی اہلحدیث کی صدی ہے۔ یہ زمانہ اہلحدیث کا زمانہ ہے۔ یہ دور اہلحدیث کا دور ہے۔انشاء اللہ۔ اس لئے کہ اب لوگ ان گورکھ دھندوں سے تنگ آچکے ہیں لوگ اب گھبرا گئے ہیں غیر اللہ کو پوج پوج کے تھک گئے ہیں ان کی پیشانیاں خاک آلود ہو گئی ہیں۔ لوگوں کو پتہ چل گیا ہے پیشانیاں زخمی دل خون آلود لیکن کچھ بھی نہیں ملا اور ملے گا تو بارگاہ الہی سے ملے گا اور بڑے قانون یہاں آزما کے دیکھے ہیں۔ یہاں بھٹو ازم بھی آزمایا گیا ہے۔ یہاں یحیی ازم بھی آزمایا گیا یہاں ایوب ازم بھی آزمایا گیا یہاں کبھی ترچھی ٹوپی پہننے والا سکندر مرزا ہوتا تھا۔ کہتا تھا میرے حکم کے بغیر پتا بھی حرکت نہیں کر سکتا اور عرش والے کی گرفت آئی اِنَّ بَطْش رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔ (سورۃ البروج:۱۲) اللہ نے کہا پاگل! تو کہتا تھا پتا بھی حرکت نہیں کرتا ؎ دو گز زمین بھی نہ مل سکی کوئے یار میں تیری لاش بھی پاکستان میں دفن نہیں ہو سکتی۔ یہ ہے عرش الٰہی کا مالک۔ لوگوں نے سب کچھ آزمایا۔ بھٹو ازم آزمایا یحییٰ ازم آزمایا ایوب ازم آزمایا سکندر مرزا کا نظام آزمایا اور اب جھوٹے ضیاء الحق کو بھی آزمایا جس کے بڑے بڑے ملانے قبر پرست لیکن مریض عشق پہ رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کوئی حل ؟ نہیں