کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 86
ہم اس طرح لڑیں گے جس طرح لڑنے کا سبق ہمیں ہمارے آقا نے دیا ہے اور آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے میں بڑا تھکا ہوا تھا جب آیا تھا اور وہابیوں نے تھکا دیا ہے کچومر نکال دیا ہے۔ خدا کی قسم ہے آج رات بھی میں ایک بجے جلسہ کر کے گھر پہنچا ہوں۔ آج رات بھی جلسہ ہے کل بھی جلسہ ہے۔ اسی وقت پناہ ملے گی جب قبر میں چلے جائیں گے نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں لیکن کوئی بات نہیں ہے جان دی‘ دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا میں اپنے رب کو گواہ بنا کے کہتا ہوں تمہیں لڑاؤں گا رب کے قرآن کے لئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے لئے اور ایک بات کہے دیتا ہوں یہ بھی نہ سمجھنا کہ تم ساتھ دو گے تب لڑوں گا۔ خدا کی قسم ہے نہیں۔ میرے اللہ تو لکھ لے۔ لوگو تم نے قیامت کے دن گواہی دینی ہے۔ کعبے کے رب کی قسم ہے تم سارے پلٹ جاؤ میں لڑوں گا اکیلا لڑوں گا اور اس وقت تک لڑوں گا جب تک مال روڈ (لاہور) پہ مدینے والے کا پرچم نہیں لہرا جاتا ہے۔ سنو! میں نے یہ عزم کیا ہوا ہے کہ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔(سورۃالانعام:۱۶۲) او مر تو سارے ہی جاتے ہیں۔ کبھی کوئی زندہ رہا ہے؟ جو شہادت کی موت نہیں مرتا وہ ہسپتال میں جا کے مر جاتا ہے۔ کوئی بستر پہ مر جاتا ہے‘ کوئی ایڑیاں رگڑ کے مر جاتا ہے‘ کوئی ٹرک کے نیچے آکے مر جاتا ہے۔ اللہ! ہم تجھ سے موت مانگتے ہیں تو اپنی راہ میں شہادت کی موت نصیب فرما موت تو وہ ہے کہ جب خدا حشر کو پوچھے کیا لے کے آئے ہو؟