کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 85
میں تو سوچ سمجھ کے آیا ہوں۔
لوگو آؤ! مجھے تمہاری ضرورت ہے اپنی ذات کے لئے نہیں۔ خدا کی قسم ہے اپنی ذات کے لئے نہیں اپنے مقاصد کے لئے نہیں مجھے تمہاری ضرورت ہے رب کی کبریائی کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مصطفائی کے لئے۔ لیکن یاد رکھو میرا راستہ پر خطر ہے اور کائنات کے امام نے کہا تھا
ان الجنۃ لمحجوبۃ بالمصائب او کما قال
جنت‘ دوزخ کو دیکھ کے آئے۔ کہا آقا جنت کیسی ہے؟
کہا جنت سے خوبصورت کوئی کائنات کی جگہ نہیں لیکن راستہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۔(سورۃ العنکبوت:۲)
کیا لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ جنت انہیں مفت میں مل جائے گی ؟
او سنو!
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ۔(سورۃ العنکبوت:۳)
او پہلے نبیوں نے جنت کی دعوت دی۔ جنت کے راستے کی طرف چلے تو کانٹوں پہ نہیں چلے بلکہ آروں سے چرائے گئے زندہ جلائے گئے۔[1]
سنو! یہ نعرہ یہ نوجوان بلند کرے گا لیکن جواب وہ دے جو اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے کہے میں کتاب و سنت کے لئے اپنی جان قربان کردوں گا‘ باقی کوئی جواب نہ دے۔
اور انشاء اللہ پھر سن لو! کبریا کی ذات والا صفات کی قسم ہے میں اپنے جیتے جی تمہیں جنت کی طرف لے کے جاؤں گا۔ انشاء اللہ۔ میں تمہیں لڑاؤں گا نہ اپنے لئے نہ یزدانی کے لئے نہ (حافظ ابراہیم) کمیر پوری کے لئے نہ شیخ الحدیث (مولانا محمد عبد اللہ) کے لئے۔
میں تمہیں لڑاؤں گا رب کی توحید کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے لئے اور انشاء اللہ
[1] اس موقع پر یہ نعرہ بلند ہوا۔ ’’علامہ احسان قدم بڑھاؤ… ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔