کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 84
کٹا کے شہید بن کے مرو۔ ہمارا راستہ ابتلاؤں کا راستہ ہے ہمارا راستہ آزمائشوں کا راستہ ہے ہمارا راستہ کٹھنائیوں کا راستہ ہے۔ ہمارے ساتھ چلے تو کوئی آبلہ پا چلے۔ جس نے اپنے پیروں کو پھول باندھے ہوئے ہیں وہ بازار گناہ میں چلا جائے۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم کانٹوں پہ چلنا سیکھے ہم تلوار کی دھاروں پہ رقص کرنا سیکھے ہم بندوقوں کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے لئے کھڑا ہونا سیکھے ہم مارشل لاء کے سامنے قرآن و سنت کی بالادستی کے لئے سر اٹھا کے جینا سیکھے۔ جو سر جھکانا چاہے وہ داتا دربار چلا جائے ہم کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہنستے ہو میں صاف کہتا ہوں جس نے سر جھکا کے جانا ہے پھر وہ اہلحدیثوں کو بدنام نہ کرے۔ شاہ شہید کے پاس قافلہ آزادی کی روانگی کے وقت ایک جوان رعنا آیا تھا۔ اتنا خوبصورت کہ سید احمد شہید کی بارگاہ میں جب وہ پہنچا۔ اسمٰعیل شہید کہتے ہیں لوگوں کی نگاہیں اس کے چہرے پہ جم گئیں۔ اتنا خوبصورت چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔ چھوٹا سا۔ ابھی اس کو داڑھی بھی نہیں آئی تھی مونچھوں کے بال بھی نہیں آئے تھے۔ سید احمد شہید نے پوچھا بیٹے کیوں آئے ہو ؟ کہا شاہ جی آپ کا ساتھ دینے آیا ہوں۔ احمد شہید کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرمایا بیٹا میرا ساتھ دینے کے لئے آئے ہو پہلے میرے مسلک کا پتہ ہے پہلے میری گذر گاہ کا علم ہے پہلے میری روش کو جانتے ہو؟ کہنے لگا سید کیا ہے؟ فرمایا صبح کو کانٹوں پہ چلنا رات کو آدھی رات کے بعد جاگنا۔ صبح کو کانٹوں پہ چلنا پتھروں پہ چلنا تلواروں کی چھاؤں میں لڑنا اور رات کو کمر سیدھی کرنے کے لئے سونا نہیں پچھلے پہر اٹھ کے رب کی بارگاہ میں گڑ گڑانا اللہ کی بارگاہ میں سجدے کرنا۔ وہ جوان رو پڑا کہنے لگا شاہ جی یہ ساری باتیں تو میری ماں نے مجھے بتلا دی تھیں آپ نے نئی بات کون سی بتلائی ہے؟ سید احمد نے اس کو گالوں سے پکڑا۔ دونوں ہاتھوں سے اس کے گالوں کو تھپتھپایا۔ کہنے لگے بیٹا جہاد کے میدان میں یہ پھول سے گال مرجھا جائیں گے۔ وہ نوجوان تڑپ اٹھا۔ اس نے کہا شاہ جی میرے گال آمنہ کے لال کے گالوں سے تو بہتر نہیں ہیں؟