کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 83
چھوڑا تب تھا جب تیرا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ اب تیرا چہرہ دیکھ لیا اب زندگی بھر کے لئے تیری زلفوں کا اسیر ہو گیا ہوں۔ اور لوگو تم اس نبی کے ماننے والے ہو۔ یوتھ فورس کے جوانو تمہارے لئے یہ ملاں ملانے اسوہ نہیں ہیں۔ یہ مدینے والا اسوہ ہے۔ خدا کی قسم ہے اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں آج اگر تم صرف اس چھت کے نیچے بیٹھنے والے لوگ اور نہیں صرف اس چھت کے نیچے بیٹھنے والے باقیوں کو نہیں کہتا۔ صرف تم کو کہتا ہوں۔ اپنے دل سے پوچھ لو اپنے من میں جھانک لو اپنے خون کی گردش سے سوال کر لو اپنے جگر کو ٹٹول لو اپنے دماغوں کو کھنگال لو۔ اگر آج تم اس بہادر نبی کے اسوہ کو اپنا کر قرآن و سنت کا پرچم تھام لو میں کبریا کی کبریائی کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ دس برس نہیں گزریں گے کہ پاکستان میں اگر پرچم لہرائے گا تو صرف اہلحدیث کا لہرائے گا۔ لیکن بزدلوں کی روائتی بزدلی لے کے نہیں چلنا۔ جس کا دل ہماری7 بات سن کر دھڑکتا ہے وہ بے شک ہم سے جدا ہو جائے۔ ہم نے کعبے کے رب کی قسم شاعر کے الفاظ میں خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے اور وہ گلشن ضیاء الحق کا نہیں اس کے باپ کا نہیں اس کے بیٹوں کا نہیں۔ بزدل قبر فروش اور مردہ فروش مردہ پرست نواز شریف کا نہیں۔ جوارئے کے مرید جونیجو کا نہیں۔ بکنے والے جھکنے والے ملاؤں کا نہیں۔ وہ گلشن مدینہ کے لال کا جس گلشن کے دو بڑے پھول ہیں ا یک رب کا قرآن ہے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ ہمارے ساتھ وہ نکلے جو رب کی چوکھٹ پہ دل و جان نچھاور کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ہم لوگوں کو جھوٹ نہیں بتلاتے۔ ہم کھیر کھلانے کے لئے نہیں لے جائیں گے ہم ختم پڑھانے کے لئے نہیں لے جائیں گے۔ جس نے جانا ہے وہ اوروں کے ساتھ چلا جائے۔ ہم نہ ٹل چومنے والے نہ ہاتھ چومنے والے ہیں۔ ہمارے ساتھ جس نے چلنا ہے علی وجہ البصیرت چلے۔ ہمارا راستہ دو طرف جاتا ہے منزل ایک ہے۔ یا سر بلند رکھ کے غازی بن کے جیو یا سر