کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 82
کہا نہیں دیکھتا۔ اب آسمان گوش برآواز
زمین سہمی پڑی تھی آسمان ساکن تھا بیچارہ
دیکھیں! آج اس تاجور کی زبان سے کیا حکم صادر ہوتا ہے؟ اس گستاخ کو کیا سزا ملتی ہے؟
لوگوں نے دیکھا کائنات نے دیکھا آسمان طیبہ نے دیکھا مسجد نبی نے دیکھا اس ستون نے دیکھا جس کے ساتھ ثمامہ بندھا ہوا تھا۔ اب حکم صادر ہو گا اس کی گردن اڑ جائے گی۔
ہمیشہ مسکرانے والا آقا مسکرایا۔ فرمایا جاؤ ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے ہم نے اسے رہا کر دیا ہے۔ ہم تجھے کچھ نہیں کہتے۔ تو بڑا آدمی ہے بڑے ملک کا حکمران ہے۔ تو نہیں دیکھتا ہم تجھے کیا کہیں؟
جاؤ اور اپنے صحابہ کو جن کی تلواریں گردن کے کاٹنے کے لئے بے تاب تھیں کہا بڑا آدمی ہے عزت کے ساتھ لے جا کر اس کو مدینہ سے رخصت کرو۔ ہائے ہائے انہوں نے چھوڑا۔ پلٹتے ہوئے اس کے دل میں خیال آیا بڑے حکمران بھی دیکھے محکوم بھی دیکھے جرنیل بھی دیکھے کرنیل بھی دیکھے صدر بھی دیکھے کمانڈر بھی دیکھے اتنا حوصلے والا تو کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے چہرے کو تو دیکھوں ہے کیسا ؟
بس ایک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
پھر دیکھا۔ دیکھ کر سرپٹ بھاگا۔ دڑکی لگا دی۔ ہائے ہائے اور پھر آگے میں نہیں کہتا ثمامہ سے سنو۔ وہ کیا کہتا ہے؟
کہا قدم آگے کی طرف بھاگ رہے دل پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا۔ دو میل بھاگتا چلا گیا اور جتنی رفتار سے گیا تھا اس سے دگنی رفتار سے واپس پلٹ آیا۔ وہ ماہ تمام ننگی زمین پہ اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ صحن مسجد میں اپنے یاروں کے ساتھ ننگے فرش پر بیٹھا ہوا تھا۔ آیا نبی نے نگاہ ڈالی سامنے ثمامہ کھڑا ہے۔ فرمایا ہم نے تو تجھ کو چھوڑ دیا تھا پھر آگئے؟
کہا
مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے