کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 81
جو بتلانی مقصود تھی وہ یہ تھی کہ ابو معبد آئے۔ گھر میں رونق دیکھی رحمتوں کو برستا ہوا دیکھا انوار کی برکھا دیکھی تجلیات کا مینہ دیکھا۔ کہا ام معبد کون آیا کون گیا؟ ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی مورخین نے ام معبد کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ جو بات بتلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے ام معبد نے کہا ابو معبد یہ نہ پوچھو کون آیا تھا کیسا تھا کیا رنگ تھا کیا شکل تھی کیا ڈھنگ تھا؟ کہا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمانوں کا سردار تھا جو زمین پہ اتر آیا تھا۔ وہ سورج تھا وہ دمکتا ہوا ستارہ تھا وہ تو روشن تارا تھا جو لمحے بھر کے لئے ہمارے گھر میں آیا اور کٹیا کو ایسے روشن کر گیا کہ اب وہ جب تک پلٹ کے نہ آئے گا اس کی خوشبو سے کٹیا مہکتی رہے گی۔ حسن کا یہ عالم؟ اس نے کیا کچھ نہیں کہلوایا۔ اس کو کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ ثمامہ گالیاں دے رہے ہو برا بھلا کہہ رہے ہو۔ ذرا نظروں کو اٹھاؤ تو سہی ذرا میرے چہرے پہ اپنی نگاہوں کو جماؤ تو سہی ذرا مجھ کو دیکھو تو سہی۔ اس نے کہا! لم ار وجھا اقبح من وجھک علی وجہ البصیر کیا دیکھوں ؟ روئے زمین پہ تجھ سے بدصورت چہرہ کوئی ہے ہی نہیں۔ ہائے ہائے۔ او لوگو! یہ میرا آقا تھا جس کے نقش قدم پہ تم نے چلنا ہے۔ جب بے آسرا تھا تب بھی گالیاں کھائیں شکن نہیں ڈالی۔ آج تاجدار تھا اپنے گھر میں گالی سنتا ہے لیکن پیشانی پہ شکن نہیں ڈالتا ہے۔ کہا کوئی بات نہیں۔ میری بستی کی طرف تو نگاہ ڈالو؟ اس نے کہا میں نے روم و یونان ایران و مصر کی بستیاں دیکھیں تیری بستی کائنات کی سب سے بدصورت بستی ہے۔ اس بستی کو کیا دیکھوں؟ ہائے ہائے! کہا کوئی بات نہیں ہے۔ دوسرے دن آئے پھر وہی جواب تیسرے دن کہنے لگے ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگتے۔ ذرا دیکھ تو لو ہم کو؟