کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 80
دودھ ہی پلا دے ؟ ہائے ہائے! اب ایک ہی دفعہ دیکھا ہے پھر نگاہ اٹھانے کی ہمت نہیں ہے۔ نظریں جھکا کے کہنے لگی۔ اس نے تو دودھ دینا کئی سال سے چھوڑ رکھا ہے۔ کہا اماں! اگر تو اجازت دے ہم تجربہ کر کے دیکھیں ؟ تو برتن تو لے آ۔ ام معبد کہتی ہے میں دل میں ہنسی لیکن چہرے کا جلال اتنا تھا انکار کی جرات نہیں ہو سکی۔ چھوٹا سا برتن اٹھا کے لے آئی۔ اس کو کیا پتہ ہے کہ یہ کون آیا ہے ؟ اس نے کہا یہ اجنبی ہے مسافر ہے بھوکا ہے ضد کر رہا ہے چلو اپنی ضد دیکھ لے۔ اس کو کیا پتہ ہے کہ آج وہ آیا ہے جس طرف یہ جاتا ہے رب کی رحمتیں ساتھ جاتی ہیں۔ اس کو کیا پتہ ہے اس کو کیا معلوم ہے کہ آج اس کے دروازے پہ کون آیا ہے ؟ چھوٹا سا برتن اٹھا کے لے آئی۔ نبی نے صدیق کو دیکھااور صدیق نے نبی کو دیکھا۔ مسکرائے اس طرح معلوم ہوا جس طرح اندھیری رات میں بادلوں کی اوٹ سے چاند نکل آیا ہے۔ وہ دانت کہ جب مسکراتے تو لوگوں کو آسمان پہ کوندنے والی بجلیاں یاد آجاتیں۔ موتی کی طرح سفید۔ میرے آقا تیری بات کا کیا کہنا ہے۔ ام معبد چھوٹا سا برتن اٹھا کے لائی۔ میرے آقا نے مسکرا کے پکڑا بکری کے نیچے بیٹھے۔ تھن کو ہاتھ لگایا معلوم ہوا بکری مدتوں سے اسی مسافر کا انتظار کر رہی تھی۔ دودھ اس طرح آیا جس طرح ساون کے مہینے میں بادل امڈ کے آتے ہیں۔ برتن سارے بھر گئے دودھ ختم ہونے میں نہیں آیا۔ حضور نے پیا ابو بکر کو پلایا اور چل نکلے۔ ام معبد کہنے لگی مسافر میں تجھ کو جانتی تو نہیں ہوں لیکن تو اتنا برکتوں والا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے ایک رات میرے گھر میں قیام کر لے۔ میرا شوہر شکار کے لئے گیا ہے وہ تیری خدمت کرے گا میں تیرے لئے اپنے ہاتھ سے ہنڈیا پکاؤں گی۔ اپنے ہاتھ سے میرے چاند سے بیٹے میں تجھ کو کھلاؤں گی۔ تو نہ جا اور میرے آقا کی زبان سے نکلا نہیں عرش والے نے نکلوایا۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔(سورۃ النجم:۳) کہا اماں میں جانے کے لئے تھوڑا آیا ہوں۔ میں پھر پلٹ کے آنے والا ہوں اور جب وہ چلے گئے تو بات