کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 79
نے حدیث کی کتابوں میں تلاش کیا سیرت کی کتابوں میں ڈھونڈا۔ ایک برس۔ پورا ایک سال کہ کسی ایک صحابی سے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نظر آجائے کوئی ایک صحابی حضور کا حلیہ بیان کر دے ایک برس ڈھونڈا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا۔ سب کو دیکھا تو یہی کہہ رہے تھے آفاق ھا گر دیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام بسیار خوباں دیدہ ام اما تو چیز ے دیگری تیرے چہرے کی کیفیات اور اس کی شکل و صورت کیسے بیان کروں کہ ایک دفعہ دیکھا ہے پھر دیکھنے کی ہمت ہی نہیں رہی ہے۔ کون ہے جو دیکھے؟ کس میں یارا ہے جو نظر ٹکا کے دیکھے‘ نگاہوں کو جما کے دیکھے سر کو اٹھا کے دیکھے۔ کس میں طاقت ہے؟ حسن کا یہ عالم کہ ایک نظر اٹھی پھر ہمیشہ نیچے ہی گری رہی اور کہا نظریں جھکا کے چلو جسم و جاں بچا کے چلو ادب گاہ ہے۔ کس نے دیکھا ہے ؟ کون ہے جو اس چہرہ تاباں کو دیکھنے کی جرات کر سکے ؟ صدیق سے بھی پوچھا گیا کہ کیا دیکھا؟ اس نے کہا بس ایک چاند تھا جو ساری کائنات کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھا اور کچھ یاد نہیں۔ اور سب سے بہتر حلیہ ام معبد نے بیان کیا ہے۔ وہ تو بیچاری ان پڑھ تھی ناآشنا تھی ناشنا ساتھی اور نہ جاننے والی تھی۔ اس کے دروازے پہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے اور کہا تھا اماں! میرے یار ابو بکر کو بھوک لگی ہے۔ کچھ کھانے کو دے دے۔ تو اس ماں نے کہا تھا بیٹا ایسا مسافر تو زندگی میں کبھی نہیں دیکھا وہ آئیں گھر ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں اور ذرا سننے والی بات ہے۔ او بریلویو! قصے بیان کرتے ہو۔ آؤ اب رخ مصطفیٰ کا تذکرہ ہم وہابیوں سے بھی سن لو۔ ام معبد نے کہا خوبصورت مسافر آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا آج تو گھر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے آقا کی نظر صحن خیمہ میں بندھی ہوئی بکری پر پڑی مدتوں سے جس کا دودھ خشک ہو چکا تھا۔ کہا اماں کھانے کو کچھ نہیں تو اس بڑھیا بکری کا