کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 78
میرا بھائی یزدانی تذکرہ کر رہا تھا اور میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ آج لوگ کہتے ہیں وہ ہمارے پاس آئے گا۔ او ان کو عشق کا کیا پتہ ہے ؟ انہوں نے اویس قرنی کو نہیں دیکھا جو ساری عمر اس لئے روتا ہوا مر گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھوں تو کیسے دیکھوں ؟ اور ایک دفعہ بے تاب ہو گیا اور قافلے والوں کو کہا جاؤ میرے آقا کو کہہ دو اب مجھے تیری دید نے بدحال کر دیا ہے۔ تیری دید کی پیاس میں‘ تیری دید کی لگن میں اب میرا سینہ پھٹ چلا۔ آقا! کیا کروں؟ نڈھال ہو گیا ہوں۔ اب یہ صدمہ اب یہ آرزو اب یہ پیار اب یہ محبت اب یہ تمنا مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ آقا نے پیغام بھیجا اویس بڑھیا ماں کو چھوڑ کے نہیں آنا ہے۔ آج ملاقات نہیں ہو گی تو جنت کے دروازوں پہ ہو جائے گی۔ آج تمہیں کیا پتہ ہے اس سرور رسولاں کا۔ تم اس کو اپنے گھر بلاتے ہو۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خدا اگر ہمیں اس کے گھر بلا لے تو ہماری یہ بڑی سعادت ہے۔ ہم میں تو اتنی ہمت ہی نہیں ہے کہ تاجداروں کے تاجدار کے بارے میں خواب میں بھی کہہ سکیں کہ ہمارے گھر آئے ادب گاہیست زیر آسماں ‘ از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید ‘ جنید و بایزید ایں جا یہاں تو صدیق و فاروق کی حالت یہ ہے۔ بات حسن سے چلی تھی۔ حیران ہو جاؤ وہابیو۔ سن لو حیران ہو جاؤ سن کر۔ نبی کی بارگاہ میں تیئس تیئس برس صحابہ رہے ہیں۔ صدیق نے ایمان کے بعد ۱۱ سال گزارے ہیں علی نے ایمان کے بعد ساڑھے بائیس سال گزارے ہیں فاروق نے ایمان کے بعد اکیس برس گزارے ہیں عثمان نے ایمان کے بعد اکیس برس گزارے ہیں۔ طلحہ نے‘ زبیر نے‘ سعد ابن ابی وقاص نے‘ عمرو ابن عاص نے‘ ابو عبیدہ ابن جراح نے‘ سعید ابن عاص نے‘ برسوں خدمت کی لیکن حسن کی فراوانی کا عالم یہ تھا کہ کسی کی نگاہ کبھی آقا کے چہرے پہ ٹکتی ہی نہیں تھی۔ کسی نے نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم ہے میں نے ایک دفعہ ایک برس تلاش کیا اور وہ بندہ کہہ رہا ہے کہ الحمد اللہ جس کے بارے میں اس کے دشمن بھی اور سارے طعنے دے سکتے ہیں بے علمی کا طعنہ نہیں دے سکتے۔ ایک برس میں