کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 77
کہا نہ تمہاری تکلیف کی کوئی پرواہ نہ تمہاری راحت کا کوئی خدشہ۔ جو جی چاہے کر لو۔ حضور نے فرمایا بڑا تیز مزاج آدمی ہے۔ اپنے صحابہ کو دیکھا۔ کہا اسے دکھ تو نہیں پہنچایا؟ کہا یا رسول اللہ! گرفتار ہی کیا ہے دکھ کوئی نہیں پہنچایا۔ فرمایا ثمامہ! ذرا میری طرف نگاہ اٹھا کے دیکھو تو سہی۔ اس نے کیا کہا ؟ ان تقتل تقتل ذا د م و ان تنعم تنعم علی منعم کیا نظر اٹھا کے دیکھنے کی بات کرتا ہے جا نہیں دیکھتا۔ مجھ کو مارا جائے گا میرے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ کیا ہے؟ ہائے ہائے! میں کہتا ہوں جبرائیل امین بھی غیض و غضب میں آگئے ہوں گے۔ فاروق کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی‘ تلوار کے میان پہ ہاتھ تڑپنے لگا‘ اشارہ ابرو ہو اس کی گردن ہو محمدؐ کے پیر ہوں۔ یہ کیا سمجھتا ہے ؟ لیکن چشم فلک نے دیکھا ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہے۔ فرمایا جتنا غصہ ہے جی چاہے نکال لو لیکن ہمارا چہرہ تو دیکھ لو ؟ ہائے ہائے ہائے۔ اس نے کیا جواب دیا؟ اس نے مدینے والے کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس نے کہا تیرا چہرہ کیا دیکھوں کائنات میں تجھ سے بدصورت آدمی کوئی نہیں ہے۔ اس کو کہا کہ جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ماں نے ایسا حسین بچہ کبھی جنا ہی نہیں چشم فلک نے ایسا خوبصورت وجود کبھی دیکھا ہی نہیں اور ایک بات حسن کی آئی ہے تو سن لیں۔ حسن کی بات بھی سن لو ہمیں وہ لوگ اپنے آپ کو پیر منواتے ہیں جن کے چہروں پہ گرہن لگا ہوا ہے۔ ان کی زیارت کے لئے۔ کہتے ہیں رسول اللہ آئیں گے۔ یہ پیر جن کا چہرہ دیکھ لیا جائے صبح کو تو شام کو روٹی میسر نہیں آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں وہ۔ ہائے ہائے۔ اللہ خدا کی قسم ہے افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئیں