کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 76
دعا کرتی ہے اللہ اگر بیٹا عطا کیا تو تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں خدمت کے لئے وقف کر دوں گی اور پھر دس سال خدمت کی ہے۔ پوچھو حافظ ابراہیم (کمیر پوری) سے‘ پوچھو حبیب الرحمن (یزدانی) سے‘ پوچھو علماء کرام سے۔ کہا پھر رب نے میری ماں کی منت کو پورا کیا۔ انس کی ماں‘ تیرے نصیبے کا کیا کہنا اور انس تیری قسمت کا کیا کہنا ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا اطہر اور تجھ کو خدمت کے لئے یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا اور میں کہا کرتا ہوں یہ خدمت کے لئے وقف ماں نے نہیں کیا عرش والے نے کروایا کہ بچہ پسند آگیا تھا۔ کہا جاؤ نبی کی خدمت کرو۔ دس برس خدمت کی۔ دس سال دس طویل برس۔ کسی نے پوچھا آقا کو کیسا پایا ہے ؟ کہا کئی دفعہ لوٹا ٹوٹ کے گر گیا۔ وضو کروانے کے لئے آیا چھوٹ گیا۔ ڈر گیا کہ کونین کا تاجدار کیا کہے گا۔ فرمایا نگاہ اٹھا کے دیکھا تو مسکراہٹ نے میرے زخمی دل پہ پھاہے رکھ دئیے تھے۔ دس برس کا طویل عرصہ۔ اس دس سال کے طویل عرصہ میں میرے آقا نے مجھے کبھی اف بھی نہیں کہا۔ اوئے بھی نہیں کہا۔ اور یہ تو خادم تھا یہ تو خدمت گزار تھا نیکو کار ماں کا بیٹا تھا۔ نبی کی ماننے والی نبی پہ جان قربان کرنے والی ماں کا بیٹا تھا۔ اور یہاں تو اس نے بھی میرے آقا کے صبر کو آزما کے دیکھا جو نہ وفادار تھا نہ یار تھا نہ تابعدار تھا نہ جاں نثار تھا جس نے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ بزعم خود بزعم خویش کمانڈر تھا جرنیل تھا تاجور تھا تاجدار تھا۔ پکڑ کے لایا گیا مسجد نبوی میں باندھ دیا گیا۔ رؤف و رحیم کو خبر دی گئی ثمامہ یمامہ کا گورنر پکڑا ہوا آیا ہے۔ تشریف لے گئے۔ دیکھا خوبصورت چہرہ لمبا قد توانا جسم بھرا ہوا سینہ اکڑی ہوئی گردن اٹھی ہوئی نگاہیں تمکنت شان شکوہ سطوت صولت حکمرانی کے جتنے عیب ہیں سارے پائے جاتے ہیں۔ سرور رسولاں آگے بڑھے۔ کہا ثمامہ کیسے ہو ؟ کہا گرفتار کر کے پوچھتے ہو کیسا ہوں ؟ فرمایا کوئی تکلیف پہنچی ہے ؟