کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 75
نماز بنا دیا تھا۔ وہ تو وہ تھا! جس قبرستان میں اس نے دعا مانگی تھی رب نے اسے جنت قرار دے دیا تھا۔ او وہ تو وہ تھا کہ جس جگہ وہ خود لیٹا تھا وہ روضہ من ریاض الجنتہ بن گیا تھا۔ وہ تو وہ تھا کہ جب آنکھ اٹھاتا تھا جبرائیل آجاتا تھا‘ جب نگاہ بدلتا تھا میکائیل آجاتا تھا‘ جب پیشانی پہ بل پڑتے تھے فاروق تلوار بدست ہو جاتا تھا۔ وہ تو وہ تھا کہ جب اس کی پیشانی پہ شکن پڑ جاتی تھی تو کائنات کی چشم شکن آلود ہو جاتی تھی۔ وہ تو وہ تھا جس کے ادنی اشارہ ابرو پہ لوگ کٹ جانا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے تھے۔ وہ تو وہ تھا کہ لوگ اس کے وضو کے قطروں کو زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے۔ او وہ تو وہ تھا کہ جس کی نگاہ اس پہ پڑ جاتی تھی جہنم اس پہ حرام ہو جاتی تھی۔ وہ تو وہ تھا تم اس سے بھی بڑھ گئے ہو ؟ تم اس سے بھی نازک ہو گئے ہو؟ تم اس سے بھی زیادہ اپنے آپ کو قیمتی سمجھنے لگ گئے ہو؟ تم نے اپنے آپ کو اس سے بھی گراں تر بنا لیا ہے؟ اگر اس نے ماریں کھائی تھیں تو تمہارا جسم جو ہے وہ کندن کا تو نہیں بنا ہوا۔ اگر اس نے گالیاں کھائیں تھیں … تمہیں کیا معلوم ہے کہ راہ حق کے راہیوں کو حق کے لئے کن صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے ؟ ہا ئے ہائے ۔ انس تیری یاد کس وقت آئی ہے۔ ایک ماں اور کیا ماں تھی ؟ اس نے منت مانی اللہ مجھے بیٹا عطا کر دے تو میں تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم بنا دوں گی۔ کیا منت مانی ہے؟ مائیں منتیں مانتی ہیں مجھے بیٹا عطا کر اسے چوہدری بناؤں گی اسے سالار بناؤں گی اسے کماندار بناؤں گی اسے سوداگر بناؤں گی اسے تاجر بناؤں گی اور انس کی ماں