کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 74
مکہ کے بازاروں میں جا کر توحید کا پرچم بلند کرتے۔ پھر مار پڑتی پھر گھر آتے اور مورخین نے لکھا ہے ایک دفعہ نبی کائنات کو اتنا مارا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو کر مکہ کے ایک چوراہے میں گر پڑے۔ نبی کی ننھی سی بیٹی فاطمہ کو کھیلتی ہوئی کو کسی نے کہا تیرے بابا کو آج دشمنوں نے اتنا مارا ہے کہ وہ بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ فاطمہ دوڑی ہوئی روتی ہوئی آئیں۔ اپنے بابا کے جسم اطہر کو دیکھا۔ ننھی سی فاطمہ تین چار برس کی عمر ہے۔ نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ اللہ لوگوں نے میرے اس باپ کو مارا ہے جس نے زندگی میں کبھی کسی کو گالی بھی نہیں دی ہے۔ اللہ میرے بابا نے گالی تو بڑی بات ہے میں نے تو اس دن بھی اپنے بابا کو دیکھا تھا جب اس کے گلوئے اطہر میں نماز کی حالت میں لوگوں نے کپڑا ڈالا ہوا تھا۔ اس کے گلے کو گھوٹ رہے تھے۔ اس کی آنکھیں باہر ابل پڑی تھیں لیکن اللہ وہ اس وقت بھی نہ تیری بارگاہ سے ہٹا اور نہ ان کے بارے میں کوئی برا لفظ کہا اور جب نماز سے فارغ ہوا گلوئے اطہر پر کپڑے کے نشانات تھے اور جبرائیل نے آکے کہا
محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرا گلا چھل گیا ہے۔ فرمایا جبرائیل میرا تو صرف گلا چھلا ہے۔ رب کی توحید کے لئے پہلے نبیوں کے گلے تو کٹ بھی گئے تھے۔
اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون
اللہ! جو جی چاہے کر لیں میں تیری راہ سے ہٹنے والا نہیں ہوں۔ یہ اپنی کر کے دیکھ لیں۔
او اہلحدیثو! آج چھوٹی چھوٹی باتوں پہ دل شکستہ ہو جاتے ہو آج معمولی معمولی طعنوں پہ گھبرا جاتے ہو آج چھوٹی سی بات پہ دل چھوٹے کر لیتے ہو۔ او جب بھی دل میں ملال آئے تو مدینے والے تاجدار کو دیکھ لیا کرو۔ تم اس سے بڑے تو نہیں ہو تم رب کی نظر میں اس سے عزیز تر تو نہیں ہو۔
او وہ تو وہ تھا جب چلتا تھا تو جبرائیل اس کی رکاب تھامتا تھا۔
وہ تو وہ تھا کہ جب نگاہ آسمان کی طرف ڈالتا تھا تو قبلہ تبدیل ہو جاتا تھا۔
وہ تو وہ تھا کہ جب اس کے دل سے ہوک اٹھتی تھی تو کائنات بدل جاتی تھی۔
وہ تو وہ تھا کہ جس کی حرکتوں کو رب نے قرآن کے حروف بنا دیا تھا۔
وہ تو وہ تھا کہ جس مسجد میں اس نے نماز پڑھی تھی رب نے اس مسجد میں نماز کو ایک لاکھ