کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 72
آج حقیقی بات یہ ہے میری ایک ہی خواہش ہے میری ایک ہی آرزو ہے میری تگ و دو کا ایک ہی مقصد ہے میری جدوجہد کا ایک ہی مطلوب ہے اور وہ یہ کہ اہلحدیث کے جوان اپنے آقا کی شجاعت کو اپنے سینوں میں بھر لیں اور خدا کی قسم ہے اگر یہ آقا کی شجاعت کے وارث بن جائیں پورے پاکستان کی کوئی قوت ان کے مقابل کھڑا ہونے کی جرات نہیں کر سکتی۔ اور آج یہ بھرا ہوا ہال جب نبی نے اپنی دعوت کا آغاز کیا اتنے لوگ نہیں تھے جتنے آج اس ہال میں موجود ہیں۔ اتنے کہاں ایک دور تو ایسا تھا جب ساری کائنات محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہی تھی اکیلی صدیقہ خدیجتہ الکبری وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر رہی تھی اور میرے آقا زخم کھا کے گھر آتے تھے‘ جسم پتھروں سے لہو لہان ہوتا تھا ٹانگوں سے خون رس رہا ہوتا تھا۔ سر پھٹا ہوا چہرے پر زخم۔ وہ سر جس سر پہ اگنے والی زلفوں کی بھی عرش والے نے قسم کھائی ہے وہ کندھے زخمی کہ جس کندھے پہ اگر کبھی چادر رکھ لی تو اللہ نے ایھا المزمل کہہ کہ پکار دیا تھا۔ وہ ٹانگیں وہ قدم زخمی کہ جب وہ مکہ سے بے بسی کے عالم میں نکلے تو عرش والے کی غیرت کو جلال آگیا اور اس نے کہا لَآ اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ. وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَا الْبَلَدِ.(سورۃ البلد:۱‘۲) تیرے اٹھنے والے قدموں کی قسم ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب تیرے قدموں کی چاپ کے سامنے روم اور ایران کی فوجوں کے دل پارا پارا ان کے پتے پانی ہو جائیں گے۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا نے کبھی اتنا بہادر آدمی دیکھا ہے؟ آج ہم کو طعنہ دیتے ہیں او تھوڑے سے اہلحدیثوں کو مروانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا ہر گز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما جو عرش والے کے لئے مرنے کا ارادہ کر لیتا ہے عرش والا اس کو زندہ جاوید بنا دیتا ہے۔ یہ مصلحت کوش ضمیر فروش یہ لوگ اس دور میں بھی تھے۔ کہتے تھے اکیلے ہو کیا کرو گے؟ اور سرور کون و مکاں اپنے چہرے کو اٹھا کے کہتے تھے میں اکیلا کہاں ہوں عرش والا