کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 71
تیرے چہرہ پر انوار سے ملا ہے‘‘ ہم نے اس کا چہرہ دیکھا ہے۔ اس کا چہرہ کہ جس کے بارے میں حسان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا واحسن منک لم ترقط عینی واجمل منک لم تلد النساء خلقت مبرء ا من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء آقا میں تیرے چہرے کے حسن کو کیا کہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو رب کے پاس کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا اللہ مجھے ایسا بناتا چلا جا تو کہتا چلا گیا رب بناتا چلا گیا۔ وہ چہرہ ! مضت الدھور و ما اتین بمثلہ ولقد اتی فعجزن عن نظرائہ زمانے بیت گئے ماؤں نے ایسا نہ جنا اور جب آمنہ رضی اللہ عنہا کے گھر یہ پیدا ہو گیا تو ماؤں نے کہا ایسا جنا جا سکتا ہی نہیں ہے۔ ہم نے تو اس کو دیکھا ہے ہم نے اپنے جی میں اس کو بسایا ہے ہم نے اپنے دل کی دھڑکنوں میں اس کو سمویا ہے ہم نے اپنے دل کا مالک اس کو سمجھا ہے اور ہم نے کہا اللہ سن لے! سر کا مالک تو ہے دل کا مالک مصطفے ہے اور ہمارے پاس سر اور دل کے سوا دوسری کوئی چیز ہے ہی نہیں ہے۔ تیسرا وہ تلاش کرے‘ جس کو سر اور دل کے سوا پیٹ کی ضرورت ہو۔ ہم نے کائنات اگر سمجھا تو دل کو سمجھا یا دماغ کو سمجھا اور اس کے لئے کیا کہیں کہ غالب جیسے قادر الکلام شاعر نے کہا تھا غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذا شتیم غالب! ہم اس کی تعریف کیا بیان کریں کہ عرش والا خود جس کی تعریف کرتا ہے او اہلحدیثو! تمہارے لئے اسی کی ذات اسی کی صفات اسی کی شخصیت اسی کا نام‘ اسی کی گفتار‘ اسی کی سیرت‘ اسی کی رفتار‘ اسی کے سوانح‘ اسی کا کردار حجت ہے اور اس نے تمہیں سکھایا تو شجاعت کا درس سکھایا بہادری کا سبق پڑھایا اور اس نے کہا سن لو میرے ماننے والوں کی گردنیں کٹ سکتی ہیں غیر اللہ کے سامنے جھک نہیں سکتی ہیں۔