کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 65
یہ تو ہرجائی پن ہے کہ آدمی جس سے محبت کا دعوی کرتا ہے اس کی طرف بھی دیکھیاور دوسرے کی طرف بھی دیکھے۔ اس کو ہرجائی کہتے ہیں۔ محبت اس کا نام نہیں ہے۔ محبت اس کا نام ہے کہ جی ایک سے لگایا جائے من میں ایک کو بسایا جائے بات ایک کی مانی جائے۔ ساری کائنات کو اس کے مقابلہ میں ٹھکرا دیا جائے۔ اور سن لو! اہلحدیث کا مسلک یہ ہے ہم نے محبت کا مرکز و محور بنایا تو مدینے والے کو اور عبادت کے لئے کسی ذات کو واحد ٹھہرایا تو عرش والے کو۔ عبادت عرش والے کے سوا کسی کی نہیں۔ کوئی کتنا بڑا آجائے۔ چاہے پیر ہو چاہے فقیر ہو چاہے حکمران ہو چاہے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہو۔ گردن جھکے گی تو الہ العالمین کے سامنے جھکے گی اور کسی کے سامنے جھک نہیں سکتی ہے۔ رب کے سوا اور کسی کے سامنے گردن نہیں جھکے گی چاہے جتنے جی چاہے آرڈیننس نافذ کر لیں۔ گردن جھکے گی تو عرش والے کے سامنے اور فرمان مانا جائے گا تو مدینے والے کا۔ نہ فرمان اس کے سوا کسی کا مانا جا سکتا ہے نہ عبادت اس سے سوا کسی کی کی جا سکتی ہے۔ سن لو! یہی اہلحدیث کا عقیدہ ہے اور وہ اہلحدیث اپنے آپ کو اہلحدیث کہلانے کا حق نہ رکھے جو رب کی بارگاہ میں بھی گردن جھکائے اور کوئی بڑا ساہو کار آجائے تھانیدار آجائے حضور ہماری گردن آپ کے سامنے بھی خم ہے۔ سن لو! جھکنے والوں کی گردن جھکی ہے لیکن ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ ہم نے گردنوں کو کٹانا روا جانا گردنوں کو جھکانا جائز نہیں سمجھا ہے۔ وہ آدمی جو غیر اللہ کے سامنے اپنی گردن کو جھکا دے وہ بھی ہمارے خانوادے کا نہیں اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو اپنے من میں بسا لے وہ بھی ہمارے خانوادے کا نہیں ہے۔ ہمارے خانوادے کا وہ ہے جس کے جی میں مدینے والا بستا ہے اور جس کی پیشانی صرف کعبے والے کے سامنے جھکتی ہے۔ نہ کعبے والے کے سوا پیشانی کسی کی بارگاہ میں جھکے نہ دل میں اور کسی کی محبت آئے۔ یہ مسلک اہلحدیث ہے اور ہم ساری کائنات کو دعوت دیتے ہیں کہ آؤ اگر محبت اس کا نام ہے کہ حضور کی یاد میں جلوس نکالے جائیں تو ہم نکالنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن محبت کا معیار میں اور تو نہیں۔ تیرے اور میرے نزدیک نبی سے سب سے